قدموں میں جب سے میرے ہیں تارے دھرے ہوئے
قدموں میں جب سے میرے ہیں تارے دھرے ہوئے
سارے عدو ہیں گھر میں بچارے دھرے ہوئے
اچھا تو ٹھیک ہے مجھے چلنا اسی پہ ہے
رستہ کہ جس پہ ہوں گے خسارے دھرے ہوئے
طاری ہے موج موج پہ کچھ اس لیے بھی خوف
آیا ہوں روند کر میں کنارے دھرے ہوئے
اک جنگ تھی ہماری جسے جیتنے کے بعد
پلکوں پہ کیوں تھے اس کے اشارے دھرے ہوئے
ان سے ہوا پہ نقش ہوئی نغمگی نویدؔ
جتنے بھی تھے چراغ ہمارے دھرے ہوئے