قدموں کا رہ دل پہ نشاں کوئی نہیں تھا

قدموں کا رہ دل پہ نشاں کوئی نہیں تھا
مدت سے یہاں گشت کناں کوئی نہیں تھا


تجھ کو تو مرے دوست ہے تنہائی میسر
میں نے وہاں کاٹی ہے جہاں کوئی نہیں تھا


ویسے تو بہت بھیڑ تھی اس خانۂ دل میں
لیکن مرے مطلب کا یہاں کوئی نہیں تھا


کوئی بھی نہیں تھا جسے ہم دل کی سناتے
کوئی بھی نہیں تھا مری جاں کوئی نہیں تھا


تو چھوڑ گیا تب بھی زیاں کوئی نہیں ہے
تو ساتھ بھی ہوتا تو زیاں کوئی نہیں تھا


تو وہم تھا میرا کہ کوئی ڈوب رہا ہے
تو سچ میں سر آب رواں کوئی نہیں تھا