قبر سے قہر کے آثار نکل آتے ہیں
قبر سے قہر کے آثار نکل آتے ہیں خانقاہوں میں بھی دربار نکل آتے ہیں اڑتی پڑتی ہوئی بے کار سی افواہوں پر سرخیاں اوڑھ کے اخبار نکل آتے ہیں غم کے سیلاب میں ہم ڈوبتے اتراتے ہیں کبھی اس پار تو اس پار نکل آتے ہیں اتنی مایوسی ہے اب زخم کے بازاروں میں آنسوؤں کے بھی خریدار نکل آتے ہیں وہ ...