قانون تو قدرت کا ہے وہی انسان بدلتے رہتے ہیں

قانون تو قدرت کا ہے وہی انسان بدلتے رہتے ہیں
یہ حرص و ہوس کے دیوانے ہر آن بدلتے رہتے ہیں


پہلے تو خدا کے بندے تھے اب پیسے کے سب یہ بندے ہیں
موسم کی طرح سے دنیا میں ایمان بدلتے رہتے ہیں


آنکھیں بدلیں پھر دل بدلے تہذیب و تمدن بھی بدلے
انجام کہاں ہوگا اس کے امکان بدلتے رہتے ہیں


وعدہ تھا وفا کرنے کا کبھی اب جور و جفا کی کھائی قسم
اس پر بھی کبھی پچھتاؤ گے پیمان بدلتے رہتے ہیں


پہلے تو تمہیں کو چاہا تھا اب موت کو بھی یہ چاہنے لگا
دستور نرالے ہیں دل کے ارمان بدلتے رہتے ہیں


کل ناز و ادا کے تیر چلے ہے آج تغافل کی برچھی
اس کو بھی کرم سمجھو نجمہؔ احسان بدلتے رہتے ہیں