اصلی نقلی

نہ کردار اصلی نہ گفتار اصلی
ہو کس طرح دنیا میں بیوپار اصلی
الیکشن میں جیتے ہیں رشوت کے بل پہ
وہ کیسے بنائیں گے سرکار اصلی
بلیک مارکیٹ ہر جگہ کھل رہے ہیں
نہ ہے جنس اصلی نہ بازار اصلی
عنان حکومت ہے قبضے میں جن کے
حقیقت میں ہیں وہ ہی بیکار اصلی
ملاوٹ کا ہے دودھ اور گھاس کا گھی
نہ غلے کے ملتے ہیں انبار اصلی
بنائے ہوئے ہیں مشینوں کے انسان
معالج ہیں اصلی نہ بیمار اصلی
ہیں اکثر عوارض کی خالق دوائیں
نہ رکھے ترقی نے آزار اصلی
نہ ہمدرد اصلی نہ غم خوار کوئی
جہاں دیکھو ملتے ہیں مکار اصلی
بنائی ہے معشوق نے نقلی صورت
تو ہو کس طرح عاشق زار اصلی
یہ مژگان و ابرو بنائے ہوئے ہیں
نہ ہیں زلفیں اصلی نہ رخسار اصلی
ہے بیکار اب اصلیت کی تمنا
نہیں ہیں پرکھنے کے معیار اصلی
زمیں تو زمیں آسماں پہ بھی اب تو
ثوابت ہیں اصلی نہ سیار اصلی