پوچھتے ہیں حال تڑپانے کے بعد
پوچھتے ہیں حال تڑپانے کے بعد
یہ کرم ہے ہر ستم ڈھانے کے بعد
غم کے سائے سے ملا ہے دل کو نور
بجلی کوندی ہے گھٹا چھا جانے کے بعد
رخ تو کشتی کا ہے ساحل کی طرف
دیکھیے کیا بیتے ٹکرانے کے بعد
اللہ اللہ کھینچنا دامان دل
زیست کے کانٹوں میں الجھانے کے بعد
مل سکا ہے ان کے غم کا کچھ مزہ
بہجت کونین ٹھکرانے کے بعد
ہائے وہ بے باک غارت گر نگاہ
جس نے لوٹا دل کو چونکانے کے بعد
برق وش جلوہ بھی کوئی جلوہ ہے
آہ یہ ڈھلکانا ترسانے کے بعد
توڑ ہی ڈالو دل کم بخت کو
جوڑنے بیٹھے ہو درکانے کے بعد
اور بھڑکاتے ہو اس پانی سے آگ
رو رہے ہو مجھ کو سلگانے کے بعد