جو جلوہ زار حسن تھا وہ دل نہیں رہا
جو جلوہ زار حسن تھا وہ دل نہیں رہا
آئینہ تو ہے جوہر قابل نہیں رہا
میں لطف التفات کے قابل نہیں رہا
پھر بھی تو مجھ سے وہ کبھی غافل نہیں رہا
وہ اور مجھ سے ترک تعلق نہیں نہیں
میرے ہی دل میں جذبۂ سیمیں نہیں رہا
اٹھتی تھی جس سے موج طلب پر نفس کے ساتھ
وہ جوش بے قراریٔ سائل نہیں رہا
غم ہی مگر نصیب کہاں اب نشاط غم
کوکبؔ وہ رنگ ولولۂ دل نہیں رہا