راز آشکارا ہے اب غم نہاں اپنا
راز آشکارا ہے اب غم نہاں اپنا
آہ یہ سکوت آخر بن گیا بیاں اپنا
حسن اور غم خواری خواب ہے کہ بیداری
ہے ہنوز کچھ باقی شاید امتحاں اپنا
کب ہوئی تلاش ان کو کھو گئے جب ایسے ہم
خود ہمیں نہیں ملتا نام کو نشاں اپنا
لطف زندگی کیسا سیر گلستاں کیسی
ہے وہ اب قفس اپنا تھا جو آشیاں اپنا
آرزوئیں گھٹ گھٹ کر دل ہی میں رہیں کب تک
لوٹ لے کوئی رہزن کاش کارواں اپنا
آ نہ جائے حرف اک دن ان کی بے نیازی پر
تا کجا محبت میں آپ امتحاں اپنا
دل کی بات کی جائے کس سے پھر سوائے دل
جب نہیں یہاں کوکبؔ کوئی رازداں اپنا