کسے شعور ہے یوں زخم دل دکھانے کا

کسے شعور ہے یوں زخم دل دکھانے کا
کہیں نہ دیکھو گے یہ رنگ مسکرانے کا


مرا لہو ہے نگار حیات کی مہندی
مجھے دماغ کہاں اشک خوں بہانے کا


نشاط غم ہی تو اس زندگی کا حاصل ہے
اگر ہو دل میں سلیقہ یہ لطف پانے کا


قفس میں جلوۂ گل کا بھی اہتمام سہی
مگر وہ عالم آزاد آشیانے کا


جو ذرہ ہے وہ دھڑکتا ہوا سا اک دل ہے
یہ کائنات تأثر ہے کس ترانے کا


ستاروں میں ہی ترنم شگوفوں میں گلبانگ
کہاں نہیں ہے فسوں ان کے گنگنانے کا


مرا سخن ہے منار ان کے حسن کا کوکبؔ
ہلا سکے گا نہ طوفاں کسی زمانے کا