پوچھا میرا نام جہاں تنہائی نے
پوچھا میرا نام جہاں تنہائی نے
چھایا لکھ دی چہرے پہ گہرائی نے
اس دن سے کپڑوں کا احساں ہے تن پر
مجھے چھوا تھا جس دن بوڑھی دائی نے
مٹی چھو کر ہرا بھرا پودا نکلا
پربت کو بھی آنکھ دکھائی رائی نے
لوگوں نے کیوں اس کو میری ذات کہا
چہرے پر جو نام لکھا رسوائی نے
بیوی بچے طعنے شکوے فرمائش
گھر آنگن ڈیرا ڈالا مہنگائی نے
اس دن بستر چھوڑا پاگل آشا نے
دھوپ لکھی جب کمروں میں انگنائی نے
بادل تھا تو امبر امبر پھرتا تھا
بوند بنا تو مانگا گہری کھائی نے
ایسی کوئی انہونی بتلا پروازؔ
بہتا پانی روک لیا ہو کائی نے