آتشیں سیلاب میں جب روح ڈالی جائے گی

آتشیں سیلاب میں جب روح ڈالی جائے گی
تشنگی صدیوں کی اشکوں سے بجھا لی جائے گی


ٹوٹتی دیوار کا سایہ بدن کی آبرو
جانے کب میرے یقیں کی خوش خیالی جائے گی


تو نے بھی جھٹلا دیا حرف تفکر کا وجود
اب مری آواز کس جھولی میں ڈالی جائے گی


اضطراب جاں حصار سنگ باری تنگ کر
جسم کی تہذیب زخموں سے اجالی جائے گی


آفتابوں کی بصیرت سطح پر بیدار ہے
کس طرح یہ وسعت ہستی کھنگالی جائے گی


ظلمت شب نے جو ٹپکائی ہے میری روح پر
وہ امانت کیسے سورج سے سنبھالی جائے گی


شہر میں بیدار کیوں ہیں خاک و خوں کی آندھیاں
یہ اگر پوچھو گے سچائی چھپا لی جائے گی


ڈھونڈنے آئیں گی جب مجھ کو مری پرچھائیاں
منتشر مجروح جسموں سے دعا لی جائے گی


شہر میں بڑھ جائیں گی پروازؔ جب پابندیاں
روشنی آنکھوں کی مٹھی میں دبا لی جائے گی