میں حجاب گماں تو حجاب یقیں
میں حجاب گماں تو حجاب یقیں
لکھ مری روح پر اضطراب یقیں
جب مقدر میں بے نور تعبیر تھی
کیوں دکھائے اجالوں نے خواب یقیں
اپنے ہونے کا احساس بھی وہم سا
کائنات تفکر سراب یقیں
جسم سے روح تک آگہی کا سفر
اور کچھ بھی نہیں انقلاب یقیں
حرف تا حرف سب نفس بے نور ہیں
آج دیمک زدہ ہے کتاب یقیں
کتنی گہری ہے ادراک کی تیرگی
میرے دل میں اتر آفتاب یقیں
چھین لینا بصارت مرے علم کی
جب بھی کرنے لگوں احتساب یقیں
میرا ملبوس بن اعتماد عمل
لے ترے نام ہے انتساب یقیں
دائرہ دائرہ سب ہی محصور ہیں
کون کھولے گا پروازؔ باب یقیں