خوابوں کی وادیوں میں دلوں کو پھرائے ہے
خوابوں کی وادیوں میں دلوں کو پھرائے ہے دریا میں جب بھی لہر کوئی سر اٹھائے ہے نس نس میں رچ گیا ہے تکلم کا بانکپن آنکھوں کی خامشی بھی مجھے گدگدائے ہے رشتوں کی دھوپ شام ہوئی اور ڈھل گئی اب اس سے کیا گلہ وہ اگر بھول جائے ہے دروازے کھل گئے ہیں بہت تیز ہے ہوا تنکا سمجھ کے کوئی مجھے ...