پرانے زخم کو دل سے مٹایا بھی نہیں جاتا

پرانے زخم کو دل سے مٹایا بھی نہیں جاتا
تری چاہت کو اوروں سے چھپایا بھی نہیں جاتا


تمیز خار و گل سے میں ہوا واقف نہیں اب تک
کہاں روشن ضمیری ہے دکھایا بھی نہیں جاتا


لگی اک آگ ہے ہر سو اذیت اور نفرت کی
سلگتی آگ کو مجھ سے بجھایا بھی نہیں جاتا


کہاں کرتا مسلماں ہے کسی کی اب نگہبانی
نفس کے ہاتھ لٹنے سے بچایا بھی نہیں جاتا


نہیں مقصود ہے محسنؔ جہاں میں دل لگانا یوں
جہاں میں اس حقیقت کو بتایا بھی نہیں جاتا