گرتا ہی جا رہا ہے کیوں معیار دن بہ دن
گرتا ہی جا رہا ہے کیوں معیار دن بہ دن
ہم پر ہی چل رہی ہے کیوں تلوار دن بہ دن
تیری بدل رہی ہے جو گفتار دن بہ دن
دیتا ہے بے سبب ہمیں آزار دن بہ دن
آنکھوں سے اشک بن کے برستی ہے تیری یاد
یوں زخم ہو رہے ہیں نمودار دن بہ دن
پہلی سی بات تجھ میں کہاں اب رہی موجود
تیور بدل رہے ہیں ترے یار دن بہ دن
ہے آخری کلام میرا سن تو لیجیے
جینا ترے بنا ہوا دشوار دن بہ دن
سچ بات ہے کہ اب حیا باقی نہیں رہی
محسنؔ بدل رہے ہیں اب اطوار دن بہ دن