بعد مدت ہی سہی دن یہ سہانے آئے
بعد مدت ہی سہی دن یہ سہانے آئے
آج کی شب وہ مجھے جام پلانے آئے
پی کے مدہوش بنا بیٹھا تری یادوں میں
سوئے خوابوں کو مرے پھر سے جگانے آئے
دیکھو ان چلتے ہوئے وقت کے طوفانوں کو
خوف فرقت کا ہمیں یار دکھانے آئے
ہم ہیں غدار تو پابند وفا تم ہو کیا
پھر بھی ہم رسم وفا تم سے نبھانے آئے
اک تری یاد ہے برسات ہے تنہائی ہے
کاش ہم سے ہی تو ملنے کے بہانے آئے