شاعری

میں اپنے جسم میں کچھ اس طرح سے بکھرا ہوں

میں اپنے جسم میں کچھ اس طرح سے بکھرا ہوں کہ یہ بھی کہہ نہیں سکتا میں کون ہوں کیا ہوں انہیں خوشی ہے اسی بات سے کہ زندہ ہوں میں ان کی دائیں ہتھیلی کی ایک ریکھا ہوں میں پی گیا ہوں کئی آنسوؤں کے سیل رواں میں اپنے دل کو سمندر بنائے بیٹھا ہوں وہ میرے دوست جو ایک ایک کرکے دور ہوئے میں ...

مزید پڑھیے

حادثوں سے بے خبر تھے لوگ دھرتی پر تمام

حادثوں سے بے خبر تھے لوگ دھرتی پر تمام آسماں کی نیلگوں آنکھوں میں تھے منظر تمام رفتہ رفتہ رسم سنگ باری جہاں سے اٹھ گئی دھیرے دھیرے ہو گئے بستی کے سب پتھر تمام تشنہ لب دھرتی پہ جب بہتا ہے پیاسوں کا لہو مدتوں مقتل میں سر خم رہتے ہیں خنجر تمام زندگی بکھری ہوئی ہے اس طرح فٹ پاتھ ...

مزید پڑھیے

سفر میں ایسے کئی مرحلے بھی آتے ہیں

سفر میں ایسے کئی مرحلے بھی آتے ہیں ہر ایک موڑ پہ کچھ لوگ چھوٹ جاتے ہیں یہ جان کر بھی کہ پتھر ہر ایک ہاتھ میں ہے جیالے لوگ ہیں شیشوں کے گھر بناتے ہیں جو رہنے والے ہیں لوگ ان کو گھر نہیں دیتے جو رہنے والا نہیں اس کے گھر بناتے ہیں جنہیں یہ فکر نہیں سر رہے رہے نہ رہے وہ سچ ہی کہتے ہیں ...

مزید پڑھیے

جب جب بھی دیکھیے اسے خوں بار سی لگے

جب جب بھی دیکھیے اسے خوں بار سی لگے دنیا ہمیشہ برسر پیکار سی لگے ہر ہر نفس پہ رنگ بدلتی ہے زندگی اک پھول سی لگے ہے کبھی خار سی لگے چہرہ ہے میرے دوست کا یا کوئی آئنہ دیکھوں الٹ پلٹ کے تو بھی آرسی لگے عادت سی پڑ گئی ہے اسے بولنے کی تیز وہ بات بھی کرے ہے تو تکرار سی لگے تم ساتھ ہو ...

مزید پڑھیے

یہ ہے آب رواں نہ ٹھہرے گا

یہ ہے آب رواں نہ ٹھہرے گا عمر کا کارواں نہ ٹھہرے گا چھوڑ دی ہے جگہ ستونوں نے سر پہ اب سائباں نہ ٹھہرے گا ریت پر ہے اثر ہواؤں کا کوئی نام و نشاں نہ ٹھہرے گا ہر قدم جو تمہاری سمت اٹھا سعیٔ رائیگاں نہ ٹھہرے گا مرحلہ آ گیا تصادم کا فاصلہ درمیاں نہ ٹھہرے گا دل کا سودا ہے کار دل ...

مزید پڑھیے

کیسی کیسی راہ میں دیواریں کرتے ہیں حائل لوگ

کیسی کیسی راہ میں دیواریں کرتے ہیں حائل لوگ پھر بھی منزل پا لیتے ہیں ہم جیسے زندہ دل لوگ وہ دیکھو ساگر گرجا طوفان اٹھا نیا ڈوبی اور تماشہ دیکھ رہے ہیں بیٹھے ساحل ساحل لوگ بزم سجا کر بھینٹ کیے ہیں ہمدردی کے چند الفاظ میرا دکھڑا بانٹ رہے ہیں میرے غم میں شامل لوگ بستی بستی گھوم ...

مزید پڑھیے

گزرے جو اپنے یاروں کی صحبت میں چار دن

گزرے جو اپنے یاروں کی صحبت میں چار دن ایسا لگا بسر ہوئے جنت میں چار دن عمر خضر کی اس کو تمنا کبھی نہ ہو انسان جی سکے جو محبت میں چار دن جب تک جیے نبھائیں گے ہم ان سے دوستی اپنے رہے جو دوست مصیبت میں چار دن اے جان آرزو وہ قیامت سے کم نہ تھے کاٹے ترے بغیر جو غربت میں چار دن پھر عمر ...

مزید پڑھیے

ہم ہی ذرے رسوائی سے

ہم ہی ذرے رسوائی سے کیا شکوہ ہرجائی سے عشق میں آخر خار ہوئے لاکھ چلے دانائی سے گرویدہ کرتے ہیں پھول رنگوں اور رعنائی سے ملتے ہیں انمول رتن ساگر کی گہرائی سے جھوٹ کے خول میں بیٹھا ہوں ڈرتا ہوں سچائی سے جوشؔ نے سیکھی ہے پرواز صرف تری انگڑائی سے

مزید پڑھیے

سونا سونا دل کا مجھے نگر لگتا ہے

سونا سونا دل کا مجھے نگر لگتا ہے اپنے سائے سے بھی آج تو ڈر لگتا ہے بانٹ رہا ہے دامن دامن میری چاہت اپنا دل بھی کسی سخی کا در لگتا ہے محرومی نے جہاں بسیرا ڈھونڈ لیا ہے مجھ کو تو وہ گھر بھی اپنا گھر لگتا ہے میری بربادی میں حصہ ہے اپنوں کا ممکن ہے یہ بات غلط ہو پر لگتا ہے جوشؔ ہوں ...

مزید پڑھیے

ہر ملاقات میں لگتے ہیں وہ بیگانے سے

ہر ملاقات میں لگتے ہیں وہ بیگانے سے فائدہ کیا ہے بھلا ایسوں کے یارانے سے کچھ جو سمجھا تو مجھے سب نے ہی عاشق سمجھا بات یہ خوب نکالی مرے افسانے سے زندگی اپنی نظر آنے لگی صرف سراب کبھی گزرے جو دل زار کے ویرانے سے ایک پل بھی نہ ٹھہر پاؤ گے اے سنگ زنو کوئی پتھر کبھی لوٹ آیا جو دیوانے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 5857 سے 5858