آنکھوں کو چمک چہرے کو اک آب تو دیجے
آنکھوں کو چمک چہرے کو اک آب تو دیجے جھوٹا ہی سہی آپ کوئی خواب تو دیجے ہم سنگ گراں ہیں خس و خاشاک ہیں کیا ہیں معلوم ہو پہلے کوئی سیلاب تو دیجے ہم جام بکف بیٹھے رہیں اور کہاں تک تقدیر میں امرت نہیں زہراب تو دیجے ہم کو بھی ہے یہ شوق کہ ڈوبیں کبھی ابھریں ہو گردش ایام کا گرداب تو ...