پیاس کی پیدائش تو کل کا قصہ ہے
پیاس کی پیدائش تو کل کا قصہ ہے اس دھرتی کا پہلا بیٹا پانی ہے سیم زدہ گھر میں بھی کتنا پیاسا ہوں دیواروں کے اندر کتنا پانی ہے
پیاس کی پیدائش تو کل کا قصہ ہے اس دھرتی کا پہلا بیٹا پانی ہے سیم زدہ گھر میں بھی کتنا پیاسا ہوں دیواروں کے اندر کتنا پانی ہے
معتبر سے رشتوں کا سائبان رہنے دو مہرباں دعاؤں میں خاندان رہنے دو مضمحل سے بام و در خستہ حال دیواریں باپ کی نشانی ہے وہ مکان رہنے دو پھیلتے ہوئے شہرو اپنی وحشتیں روکو میرے گھر کے آنگن پر آسمان رہنے دو آنے والی نسلیں خود حل تلاش کر لیں گی آج کے مسائل کو خوش گمان رہنے دو الجھے ...
ائیرپورٹ اسٹیشن سڑکوں پر ہیں کتنے سارے لوگ جانے کون سے سکھ کی خاطر پھرتے مارے مارے لوگ شام گئے یہ منظر ہم نے ملکوں ملکوں دیکھا ہے گھر لوٹیں بوجھل قدموں سے بجھے ہوئے انگارے لوگ سب سے شاکی خود سے نالاں اپنی آگ میں جلتے ہیں دکھ کے سوا اور کیا بانٹیں گے ان جیسے اندھیارے لوگ پر نم ...
بہت دنوں سے ہمارا خوابوں سے کوئی بھی رابطہ نہیں ہے کچھ ایسے کار جہاں میں کھوئے کہ اپنا بھی کچھ پتہ نہیں ہے یہ ناامیدی کی انتہا ہے کہ آگہی کی ہے کوئی منزل یہ دل کو کیا عارضہ ہوا ہے اسے کسی سے گلہ نہیں ہے ہمیشہ سچ بولنے کی عادت ہے کیا یہ سچ بولتے رہیں گے قدم قدم پر ہے آزمائش سہل ...
کسی احساس میں پہلی سی اب شدت نہیں ہوتی کہ اب تو دل کے سناٹے سے بھی وحشت نہیں ہوتی زمانے بھر کے غم اپنا لئے ہیں خود فریبی میں خود اپنے غم سے ملنے کی ہمیں فرصت نہیں ہوتی گزر جاتی ہے ساری زندگی جن کے تعاقب میں بگولے ہیں کسی بھی خواب کی صورت نہیں ہوتی قسم کھائی ہے ہم نے بارہا خاموش ...
یہ دل بس میں کبھی میرے رہا نئیں کبھی یادوں کا دامن چھوڑتا نئیں بھلائیں کیسے امروہے کی گلیاں ابھی لہجے سے امروہہ گیا نئیں یہیں گم کردہ اپنا آشیاں تھا جہاں باقی کوئی اب آشنا نئیں شکستہ ہو چکے محراب و در سب ابھی تک ذہن سے نقشہ گیا نئیں ہمارے نام کی تختی نہیں ہے مگر وہ گھر تو ...
اپنے احساس شرر بار سے ڈر لگتا ہے اپنی ہی جرأت اظہار سے ڈر لگتا ہے اتنی راہوں کی صعوبت سے گزر جانے کے بعد اب کسے وادیٔ پر خار سے ڈر لگتا ہے کتنے ہی کام ادھورے ہیں ابھی دنیا میں عمر کی تیزئ رفتار سے ڈر لگتا ہے ساری دنیا میں تباہی کے سوا کیا ہوگا اب تو ہر صبح کے اخبار سے ڈر لگتا ...
کیسے کیسے سوانگ رچائے ہم نے دنیا داری میں یوں ہی ساری عمر گنوا دی اوروں غم خواری میں ہم بھی کتنے سادہ دل تھے سیدھی سچی بات کریں لوگوں نے کیا کیا کہہ ڈالا لہجوں کی تہ داری میں جب دنیا پر بس نہ چلے تو اندر اندر کڑھنا کیا کچھ بیلے کے پھول کھلائیں آنگن کی پھلواری میں کئی دنوں سے ...
خون آنسو بن گیا آنکھوں میں بھر جانے کے بعد آپ آئے تو مگر طوفاں گزر جانے کے بعد چاند کا دکھ بانٹنے نکلے ہیں اب اہل وفا روشنی کا سارا شیرازہ بکھر جانے کے بعد ہوش کیا آیا مسلسل جل رہا ہوں ہجر میں اک سنہری رات کا نشہ اتر جانے کے بعد زخم جو تم نے دیا وہ اس لیے رکھا ہرا زندگی میں کیا ...
یہ مت کہو کہ بھیڑ میں تنہا کھڑا ہوں میں ٹکرا کے آبگینے سے پتھر ہوا ہوں میں آنکھوں کے جنگلوں میں مجھے مت کرو تلاش دامن پہ آنسوؤں کی طرح آ گیا ہوں میں یوں بے رخی کے ساتھ نہ منہ پھیر کے گزر اے صاحب جمال ترا آئنا ہوں میں یوں بار بار مجھ کو صدائیں نہ دیجئے اب وہ نہیں رہا ہوں کوئی ...