ائیرپورٹ اسٹیشن سڑکوں پر ہیں کتنے سارے لوگ

ائیرپورٹ اسٹیشن سڑکوں پر ہیں کتنے سارے لوگ
جانے کون سے سکھ کی خاطر پھرتے مارے مارے لوگ


شام گئے یہ منظر ہم نے ملکوں ملکوں دیکھا ہے
گھر لوٹیں بوجھل قدموں سے بجھے ہوئے انگارے لوگ


سب سے شاکی خود سے نالاں اپنی آگ میں جلتے ہیں
دکھ کے سوا اور کیا بانٹیں گے ان جیسے اندھیارے لوگ


پر نم آنکھوں بوجھل دل سے کتنی بار وداعی لی
کتنا بوجھ لئے پھرتے ہیں ہم جیسے بنجارے لوگ


وہ کتنے خوش قسمت تھے جو اپنے گھروں کو لوٹ گئے
شہروں شہروں گھوم رہے ہیں ہم حالات کے مارے لوگ


رات گئے یادوں کے جنگل میں دیوالی ہوتی ہے
دیپ سجائے آ جاتے ہیں بھولے بسرے پیارے لوگ


بچپن کتنا پیارا تھا جب دل کو یقیں آ جاتا تھا
مرتے ہیں تو بن جاتے ہیں آسمان کے تارے لوگ