دل میں ہمارے اب کوئی ارماں نہیں رہا
دل میں ہمارے اب کوئی ارماں نہیں رہا وہ اہتمام گردش دوراں نہیں رہا پیش نظر وہ خسرو خوباں نہیں رہا میری حیات شوق کا ساماں نہیں رہا سمجھا رہا ہوں یوں دل مضطر کو ہجر میں وہ کون ہے جو غم سے پریشاں نہیں رہا دیکھا ہے میں نے گیسوئے کافر کا معجزہ تار نفس بھی میرا مسلماں نہیں رہا اشکوں ...