پئے سجدہ اگر مجھ کو نہ تیرا آستاں ملتا

پئے سجدہ اگر مجھ کو نہ تیرا آستاں ملتا
جو پیہم ملنے والا تھا سکون دل کہاں ملتا


مری مستی پہ زاہد کس لئے اب رشک کرتا ہے
تری تقدیر میں ہوتا تو لطف جاوداں ملتا


حرم تک ہی اگر محدود ہوتی عاشقی اپنی
تم ہی سوچو کہ پھر تم سا بت کافر کہاں ملتا


مری شفاف پیشانی نے میری لاج رکھ لی ہے
مجھے کیا کیا سمجھتے تم جو سجدوں کا نشاں ملتا


عزیزؔ وارثی جو تم بھی ابن الوقت ہو جاتے
تمہارا تذکرہ بھی داستاں در داستاں ملتا