اداس اداس طبیعت جو تھی بہلنے لگی
اداس اداس طبیعت جو تھی بہلنے لگی
ابھی میں رو ہی رہا تھا کہ رت بدلنے لگی
پڑوس والو! دریچوں کو مت کھلا چھوڑو
تمہارے گھر سے بہت روشنی نکلنے لگی
ذرا تھمے تھے کہ پھر ہو گئے رواں آنسو
جو رک گئی تھی وہ غم کی برات چلنے لگی
بھلا ہو شہر کے لوگوں کی خوش لباسی کا
کہ بے کسی بھی مرا پیرہن بدلنے لگی
ٹھہر گئی ہے کہاں آ کے ڈھلتے ڈھلتے رات
مری نظر بھی چراغوں کے ساتھ جلنے لگی
نظر اٹھی تو اندھیرا تھا جب قدم اٹھے
شعاع مہر مرے ساتھ ساتھ چلنے لگی
ستم ظریفیٔ فطرت تو دیکھیے اظہرؔ
شباب آیا غزل پر تو عمر ڈھلنے لگی