شاعری

تشنگئ لب پہ ہم عکس آب لکھیں گے

تشنگئ لب پہ ہم عکس آب لکھیں گے جن کا گھر نہیں کوئی گھر کے خواب لکھیں گے تم کو کیا خبر اس کی زندگی پہ کیا بیتی زندگی کے زخموں پر ہم کتاب لکھیں گے جس ہوا نے کاٹی ہیں خامشی کی زنجیریں اس ہوا کے لہجے کو انقلاب لکھیں گے جھوٹ کی پرستش میں عمر جن کی گزری ہے تیرگیٔ شب کو وہ آفتاب لکھیں ...

مزید پڑھیے

اسیران حوادث کی گراں جانی نہیں جاتی

اسیران حوادث کی گراں جانی نہیں جاتی جہاں سے خون انسانی کی ارزانی نہیں جاتی دروغ مصلحت کے دیکھ کر آثار چہروں پر حقیقت آشنا آنکھوں کی حیرانی نہیں جاتی نشان خسروی تو مٹ گئے ہیں لوح عالم سے کلاہ خسروی سے بوئے سلطانی نہیں جاتی اندھیرا اس قدر ہے شہر پر چھایا سیاست کا کسی بھی شخص کی ...

مزید پڑھیے

پڑے ہیں راہ میں جو لوگ بے سبب کب سے

پڑے ہیں راہ میں جو لوگ بے سبب کب سے پکارتی ہے انہیں منزل طلب کب سے یہ اور بات مکینوں کو کچھ خبر نہ ہوئی لگا رہے تھے محافظ مگر نقب کب سے کوئی بھی حربۂ تشہیر کارگر نہ ہوا تماشبیں ہی رہی شہرت ادب کب سے اکھڑ گئی ہیں طنابیں ستم کے خیموں کی الٹ گئی ہے بساط حسب نسب کب سے نہ حوصلہ ہے ...

مزید پڑھیے

رخ حیات ہے شرمندۂ جمال بہت

رخ حیات ہے شرمندۂ جمال بہت جمی ہوئی ہے ابھی گرد ماہ و سال بہت گریز پا ہے جو مجھ سے ترا وصال تو کیا مرا جنوں بھی ہے آمادۂ زوال بہت مجھے ہر آن یہ دیتا ہے وصل کی لذت وفا شناس ہے تجھ سے ترا خیال بہت کتاب زیست کے ہر اک ورق پہ روشن ہیں یہ تیری فردہ نگاہی کے خد و خال بہت پلٹ گئے جو پرندے ...

مزید پڑھیے

مرے ہر لفظ کی توقیر رہنے کے لیے ہے

مرے ہر لفظ کی توقیر رہنے کے لیے ہے میں وہ زندہ ہوں مری تحریر رہنے کے لیے ہے ستم گر نے جو پہنائی مرے دست طلب میں یہ مت سمجھو کہ وہ زنجیر رہنے کے لیے ہے مرا آئینۂ تصنیف دیتا ہے گواہی مرا ہر نقطۂ تفسیر رہنے کے لیے ہے رہے گا تو نہ تیرا ظلم پر روز ابد تک ہمارے درد کی جاگیر رہنے کے لیے ...

مزید پڑھیے

سمندر کا تماشہ کر رہا ہوں

سمندر کا تماشہ کر رہا ہوں میں ساحل بن کے پیاسا مر رہا ہوں اگرچہ دل میں صحرائے تپش ہے مگر میں ڈوبنے سے ڈر رہا ہوں میں اپنے گھر کی ہر شے کو جلا کر شبستانوں کو روشن کر رہا ہوں وہی لائے مجھے دار و رسن پر میں جن لوگوں کا پیغمبر رہا ہوں وہی پتھر لگا ہے میرے سر پر ازل سے جس کو سجدے کر ...

مزید پڑھیے

دھانی سرمئی سبز گلابی جیسے ماں کا آنچل شام

دھانی سرمئی سبز گلابی جیسے ماں کا آنچل شام کیسے کیسے رنگ دکھائے روز لبالب چھاگل شام چرواہے کو گھر پہنچائے پہرے دار سے گھر چھڑوائے آتے جاتے چھیڑتی جائے دروازے کی سانکل شام سورج کے پاپوں کی گٹھری سر پر لادے تھکی تھکی سی خاموشی سے منہ لٹکائے چل دیتی ہے پیدل شام بے حس دنیا داروں ...

مزید پڑھیے

پھل درختوں سے گرے تھے آندھیوں میں تھال بھر

پھل درختوں سے گرے تھے آندھیوں میں تھال بھر میرے حصے میں مگر آئے نہیں رومال بھر پہلے سارے پنچھیوں کو پر ملیں پرواز کے پھر شکاری سے کہے کوئی کہ اپنا جال بھر موسموں کی سختیاں تو بادلوں سی اڑ گئیں آج بھی محفوظ کب ہے دل کا شیشہ بال بھر دھند ہی چھائی رہی آنکھوں میں تم سے کیا کہیں اب ...

مزید پڑھیے

ذہن اور دل میں جو رہتی ہے چبھن کھل جائے

ذہن اور دل میں جو رہتی ہے چبھن کھل جائے آئے کاغذ پہ تو سلمائے سخن کھل جائے قطرۂ‌ دیدۂ نمناک مسیحائی کرے فکر کے بند دریچوں کی شکن کھل جائے میں اسے روز مناتا ہوں سحر ہونے تک میرے اللہ کسی شب تو یہ دلہن کھل جائے ایک خوشبو سی ہے جو روح کی گہرائی میں لفظ مل جائیں تو معنی کا چمن کھل ...

مزید پڑھیے

چراغوں میں اندھیرا ہے اندھیرے میں اجالے ہیں

چراغوں میں اندھیرا ہے اندھیرے میں اجالے ہیں ہمارے شہر میں کالی ہوا نے پر نکالے ہیں ہمیں شب کاٹنے کا فن وراثت میں ملا ہم نے کبھی پتھر پکائے ہیں کبھی سپنے ابالے ہیں دلوں میں خوف ہے اس کا نظر ہے اس کی رحمت پر گناہ گاروں میں شامل ہیں مگر اللہ والے ہیں لڑے تھے ساتھ مل کر ہم چراغوں ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4660 سے 5858