خود کو خودی کا آئنہ دکھلا رہا ہوں میں
خود کو خودی کا آئنہ دکھلا رہا ہوں میں اپنا حریف آپ بنا جا رہا ہوں میں قسمت کی پستیوں کی حدیں ختم ہو چکیں اب رفعتوں کی سمت اڑا جا رہا ہوں میں ناکام آرزو ہوں مگر اف یقین عشق دانستہ پھر فریب وفا کھا رہا ہوں مہر سکوت لب پہ ہے بہکے ہوئے قدم اے بے خودی پھر آج کدھر جا رہا ہوں میں پھر ...