شاعری

خود کو خودی کا آئنہ دکھلا رہا ہوں میں

خود کو خودی کا آئنہ دکھلا رہا ہوں میں اپنا حریف آپ بنا جا رہا ہوں میں قسمت کی پستیوں کی حدیں ختم ہو چکیں اب رفعتوں کی سمت اڑا جا رہا ہوں میں ناکام آرزو ہوں مگر اف یقین عشق دانستہ پھر فریب وفا کھا رہا ہوں مہر سکوت لب پہ ہے بہکے ہوئے قدم اے بے خودی پھر آج کدھر جا رہا ہوں میں پھر ...

مزید پڑھیے

کفر ایک رنگ قدرت بے انتہا میں ہے

کفر ایک رنگ قدرت بے انتہا میں ہے جس بت کو دیکھتا ہوں وہ یاد خدا میں ہے عاشق ہے جو کہ جامۂ صدق و صفا میں ہے معشوق ہے جو پردۂ حلم و حیا میں ہے عالم ہے مست سجدۂ جاناں میں تا ابد مستی بلا کی بادۂ ''قالو بلیٰ'' میں ہے ایماں ہے عکس رخ تو ہے گیسو کا عکس کفر وہ کون چیز ہے جو تری ماسوا ...

مزید پڑھیے

دور ہو درد دل یہ اور درد جگر کسی طرح

دور ہو درد دل یہ اور درد جگر کسی طرح آج تو ہم نشیں اسے لا مرے گھر کسی طرح تیر مژہ ہو یار کا اور نشانہ دل مرا تیر پہ تیر تا بہ کے کیجے حذر کسی طرح نالہ ہو یا کہ آہ ہو شام ہو یا پگاہ ہو دل میں بتوں کے ہائے ہائے کیجے اثر کسی طرح آئی شب فراق ہے رات ہے سخت یہ بہت کیجے شمار اختراں تا ہو ...

مزید پڑھیے

جو ہے یاں آسائش رنج و محن میں مست ہے

جو ہے یاں آسائش رنج و محن میں مست ہے کوچۂ جاناں میں ہم ہیں قیس بن میں مست ہے تیرے کوچے میں ہے قاتل رقص گاہ عاشقاں کوئی غلطاں سر بکف کوئی کفن میں مست ہے میکدے میں بادہ کش بت خانے میں ہیں بت پرست جو ہے عالم میں وہ اپنی انجمن میں مست ہے نکہت زلف صنم سے یاں معطر ہے دماغ کوئی مشک چیں ...

مزید پڑھیے

رکھا سر پر جو آیا یار کا خط

رکھا سر پر جو آیا یار کا خط گیا سب درد سر کیا تھا دوا خط دیا خط اور ہوں قاصد کے پیچھے ہوا تاثیر میں کیا کہربا خط وہیں قاصد کے منہ پر پھینک مارا دیا قاصد نے جب جا کر مرا خط ہے لازم حال خیریت کا لکھنا کبھی تو بھیج او نا آشنا خط رہا ممنون کاغذ ساز کا میں سنا دے گا اسے سب ماجرا ...

مزید پڑھیے

ہم نہ بت خانے میں نے مسجد ویراں میں رہے

ہم نہ بت خانے میں نے مسجد ویراں میں رہے حسرت و آرزوئے جلوۂ جاناں میں رہے خوں ہے وہ جس سے کہ ہو دامن قاتل رنگیں خون فاسد ہے جو خالی سر مژگاں میں رہے ہم نے مصنوع سے صانع کی حقیقت پائی بے سبب ہم نہیں نظارۂ خوباں میں رہے صبح خورشید کو دیکھا ہوس عارض میں شام سے روشنیٔ شمع شبستاں میں ...

مزید پڑھیے

حصول منزل جاں کا ہنر نہیں آیا

حصول منزل جاں کا ہنر نہیں آیا وہ روشنی تھی کہ کچھ بھی نظر نہیں آیا بھٹک رہے ہیں ابھی زیست کے سرابوں میں مسافروں کو شعور سفر نہیں آیا تمام رات ستارہ شناس روتے رہے نظر گنوا دی ستارہ نظر نہیں آیا ہزار منتیں کیں واسطے خدا کے دیے یہ راہ راست پہ وہ راہ بر نہیں آیا زبان شعر پہ مہر ...

مزید پڑھیے

دیدۂ بے رنگ میں خوں رنگ منظر رکھ دیے

دیدۂ بے رنگ میں خوں رنگ منظر رکھ دیے ہم نے اس دشت تپاں میں بھی سمندر رکھ دیے وہ جگہ جو لعل و گوہر کے لیے مقصود تھی کس نے یہ سنگ ملامت اس جگہ پر رکھ دیے اب کسی کی چیخ کیا ابھرے کہ میر شہر نے ساکنان شہر کے سینوں پہ پتھر رکھ دیے شاخساروں پر نہ جب اذن نشیمن مل سکا ہم نے اپنے آشیاں دوش ...

مزید پڑھیے

کبھی آنکھوں پہ کبھی سر پہ بٹھائے رکھنا

کبھی آنکھوں پہ کبھی سر پہ بٹھائے رکھنا زندگی تلخ سہی دل سے لگائے رکھنا لفظ تو لفظ ہیں کاغذ سے بھی خوشبو پھوٹے صفحۂ وقت پہ وہ پھول کھلائے رکھنا چاند کیا چیز ہے سورج بھی ابھر آئے گا ظلمت شب میں لہو دل کا جلائے رکھنا حرمت حرف پہ الزام نہ آنے پائے سخن حق کو سر دار سجائے رکھنا فرش ...

مزید پڑھیے

کوئی شے دل کو بہلاتی نہیں ہے

کوئی شے دل کو بہلاتی نہیں ہے پریشانی کی رت جاتی نہیں ہے ہمارے خواب چوری ہو گئے ہیں ہمیں راتوں کو نیند آتی نہیں ہے کوئی تتلی کماں داروں کے ڈر سے فضا میں پنکھ پھیلاتی نہیں ہے ہر اک صورت ہمیں بھاتی نہیں ہے کوئی صورت ہمیں بھاتی نہیں ہے جس آزادی کے نغمے ہیں زباں پر وہ آزادی نظر آتی ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4659 سے 5858