جاناں کو سر مہر و وفا ہے جھوٹ سب
جاناں کو سر مہر و وفا ہے جھوٹ سب کچھ اس نے کہا ہے یا لکھا ہے جھوٹ سب وہ کب لکھتا ہے اور کب کہتا ہے قاصد کہتا ہے یوں کہا ہے جھوٹ سب
جاناں کو سر مہر و وفا ہے جھوٹ سب کچھ اس نے کہا ہے یا لکھا ہے جھوٹ سب وہ کب لکھتا ہے اور کب کہتا ہے قاصد کہتا ہے یوں کہا ہے جھوٹ سب
گو کچھ بھی وہ منہ سی نہیں فرماتے ہیں شیریں سخنی کا ہم مزا پاتے ہیں الفاظ کچھ ان کے منہ میں گرانی ہیں لب کھل نہیں سکتے بند ہو جاتے ہیں
یہاں کال سے ہے طرح طرح کی تکلیف فاقوں سے ہوئے ہیں آدمی زار نحیف اس سال میں یا حضرت ماہ رمضاں حاجت کیا تھی کہ آپ لائے تشریف
کیا بات ہے کارساز تیری میں کون کیا شان ہے بے نیاز تیری میں کون رکھوں کیا حوصلہ پڑھوں کیا مقدور روزہ تیرا نماز تیری میں کون
سجادہ ہے میرا فلک نیلی فام تسبیح کواکب آفتاب اس کا امام تارے گنتا ہوں میں سحر تک ناظمؔ تسبیح امام تک پہنچ کر ہو تمام
ناظمؔ اسے خط میں کہتے ہو کیا لکھیے ہم کیا کہیں حال زار اپنا لکھیے ہو جائے گا خط بال کبوتر پہ گراں کیوں سنگ دلی کا شکوہ اتنا لکھیے
پھیلا کے تصور کے اثر کو میں نے مشہور کیا سعیٔ نظر کو میں نے ظاہر در و بام سے ہے نقش رخ دوست بت خانہ بنا رکھا ہے گھر کو میں نے
اخلاص کی دھوکے پر ہوں مائل تیرا سچ تو یہ ہے کہ جانتا ہے مشکل تیرا ریشم کی سی لچھی ہیں سب اعضا تیرے کیوں کر جانوں کہ سخت ہے دل تیرا
انداز و ادا سے کچھ اگر پہچانوں البتہ اسے خدا قائل جانوں کافر مغرور بے کینہ کش بے باک وہ اور خدا کو مانے کیوں کر مانوں
گر کہے حلول ہے وہ اک امر قبیح ایسا ہے کچھ اتحاد باطل ہے صریح جب ممکن واجب میں ہوئے عینیت کیوں کر نہ کہوں کہ ہے ہمہ و است صحیح