سڑکوں پہ تری پھرتا تھا مارا مارا
سڑکوں پہ تری پھرتا تھا مارا مارا دل غم سے ہوا جاتا تھا پارا پارا مانا کہ محبت کو ترستا ہی رہا لیکن نہ مصائب سے کبھی میں ہارا
سڑکوں پہ تری پھرتا تھا مارا مارا دل غم سے ہوا جاتا تھا پارا پارا مانا کہ محبت کو ترستا ہی رہا لیکن نہ مصائب سے کبھی میں ہارا
جذبہ ہر اک اندام میں ڈھل سکتا ہے یہ سوز تمنا سے بھی جل سکتا ہے تاریک سہی راہ محبت لیکن چاہے اگر انساں تو سنبھل سکتا ہے
بیداری کا اک دور نیا آتا ہے وحشت کا بھی انداز بدل جاتا ہے اب اہل خرد خوش ہیں کہ دیوانہ بھی محفل میں نئی شمع جلا جاتا ہے
اب جذبۂ وحشت کی قسم مت کھاؤ رہ رہ کے محبت کی قسم مت کھاؤ آنکھوں کی چمک کھول نہ دے سارا بھرم خود اپنی صداقت کی قسم مت کھاؤ
آئینۂ مہتاب لئے آئے ہیں شعروں میں مئے ناب لیے آئے ہیں اس دور حقیقت میں بھی اے فنکارو ہم کتنے حسیں خواب لیے آئے ہیں
اک خواب کی تعبیر حقیقت ہی نہ ہو انداز تغافل میں محبت ہی نہ ہو خوابوں سے حقیقت کو سمجھنے والو ممکن ہے تخیل میں صداقت ہی نہ ہو
کہتے رہیں یہ لوگ کہ اچھا نہ ہوا وہ کون سا عاشق ہے کہ رسوا نہ ہوا آزاد رہو اپنی محبت کے لئے یہ کیا ہے کہ پہلے کبھی ایسا نہ ہوا
بیتابی میں ہر طرح سے برباد رہا دل اپنا غم دہر سے آباد رہا پھرتا رہا ہر شہر میں مارا مارا اے لکھنؤ تو مجھ کو مگر یاد رہا
کانوں کی غرض کلام بتلاتا ہے آنکھیں کیوں ہیں نظر خود جاتا ہے کیا کیا درکار ہے یہ میں کیوں سوچوں تو خود ہر چیز دے کے سمجھاتا ہے
جب تک تکلیف دل نہیں پاتا ہے کیا کیا مانگوں سمجھ میں کب آتا ہے میں اپنی ضرورتوں کے احساس میں گم اور تو ہے کہ بے مانگے دیے جاتا ہے