ثانی نہیں تیرا نہ کوئی تیری مثال
ثانی نہیں تیرا نہ کوئی تیری مثال کس خواب کی تعبیر ہے یہ شان جمال سینے میں یکسوئی کے پلتے پلتے جیسے صورت پکڑ لے یزداں کا خیال
ثانی نہیں تیرا نہ کوئی تیری مثال کس خواب کی تعبیر ہے یہ شان جمال سینے میں یکسوئی کے پلتے پلتے جیسے صورت پکڑ لے یزداں کا خیال
یہ شعلۂ حسن جیسے بجتا ہو ستار ہر خط بدن کی لو میں مدھم جھنکار رنگین نگاہ سے کھل اٹھتے ہیں چمن رس ہونٹوں کا پی کے جھوم اٹھتی ہے بہار
امرت وہ ہلاہل کو بنا دیتی ہے غصے کی نظر پھول کھلا دیتی ہے ماں لاڈلی اولاد کو جیسے تاڑے کس پیار سے پریمی کو سزا دیتی ہے
آنکھوں میں وہ رس جو پتی پتی دھو جائے زلفوں کے فسوں سے مار سنبل سو جائے جس وقت تو سیر گلستاں کرتا ہو ہر پھول کا رنگ اور گہرا ہو جائے
چڑھتی ہوئی ندی ہے کہ لہراتی ہے پگھلی ہوئی بجلی ہے کہ بل کھاتی ہے پہلو میں لہک کے بھینچ لیتی ہے وہ جب کیا جانے کہاں بہا لے جاتی ہے
جو رنگ اڑا وہ رنگ آخر لایا درد و غم و سوز و ساز کیا کیا پایا سب جینے کا مزہ ملا محبت کر کے صد شکر فراق کو دکھانا آیا
ہر سانس میں گل زار سے کھل جاتے تھے ہر لمحہ میں جنت کی ہوا کھاتے تھے کیا تجھ کو محبت کے وہ ایام ہیں یاد جب پردۂ شب بجتے تھے دن گاتے تھے
افسردہ فضا پہ جیسے چھایا ہو ہراس دنیا کو کوئی ہوا بھی آتی نہیں راس ڈوبی جاتی ہو جیسے نبض کونین جس بات پہ حسن آج اتنا ہے اداس
پاتے جانا ہے اور نہ کھوتے جانا ہنستے جانا ہے اور نہ روتے جانا اول اور آخری پیام تہذیب انسان کو انسان ہے ہوتے جانا
جس طرح ندی میں ایک تارا لہرائے جس طرح گھٹا میں ایک کوندا بل کھائے برمائے فضا کو جیسے اک چندر کرن یونہی شام فراق تیری یاد آئے