عیسیٰؔ کے نفس میں بھی یہ اعجاز نہیں
عیسیٰؔ کے نفس میں بھی یہ اعجاز نہیں تجھ سے چمک اٹھتی ہے عناصر کی جبیں اک معجزۂ خموش طرز رفتار اٹھتے ہیں قدم کہ سانس لیتی ہے زمیں
عیسیٰؔ کے نفس میں بھی یہ اعجاز نہیں تجھ سے چمک اٹھتی ہے عناصر کی جبیں اک معجزۂ خموش طرز رفتار اٹھتے ہیں قدم کہ سانس لیتی ہے زمیں
یہ راز و نیاز اور یہ سماں خلوت کا یہ آنکھ میں آنکھ ڈال دینا تیرا ہرنی ہے ڈری ڈری سی اور کچھ مانوس یہ نرم جھجک سپردگی کی یہ ادا
آنکھیں ہیں کہ پیغام محبت والے بکھری ہیں لٹیں کہ نیند میں ہیں کالے پہلو سے لگا ہوا ہرن کا بچہ کس پیار سے ہے بغل میں گردن ڈالے
بن باسیوں میں جلوۂ گلشن لے کر تاریکیوں میں شعلہ ایمن لے کر وہ ہنستی ہوئی روپ کی دیوی آئی کانٹوں میں کھلے پھول سا جوبن لے کر
کھلتا ہی نہیں حسن ہے پنہاں کہ عیاں دیکھے تجھے کیسے کوئی اے جان جہاں بندھ جاتا ہے اک جلوہ و پردہ کا طلسم یہ غیب و شہود آنکھ مچولی کا سماں
آواز پہ سنگیت کا ہوتا ہے بھرم کروٹ لیتی ہے نرم لے میں سرگم یہ بول سریلے تھرتھراتی ہے فضا ان دیکھے ساز کا کھنکنا پیہم
صحرا میں زماں مکاں کے کھو جاتی ہیں صدیوں بیدار رہ کے سو جاتی ہیں اکثر سوچا کیا ہوں خلوت میں فراقؔ تہذیبیں کیوں غروب ہو جاتی ہیں
گیسو بکھرے ہوئے گھٹائیں بے خود آنچل لٹکا ہوا ہوائیں بے خود پر کیف شباب سے ادائیں بے خود گاتی ہوئی سانس سے فضائیں بے خود
کومل پد گامنی کی آہٹ تو سنو گاتے قدموں کی گنگناہٹ تو سنو ساون لہرا ہے مد میں ڈوبا ہوا روپ رس کی بوندوں کی جھمجھماہٹ تو سنو
زلفوں سے فضاؤں میں اداہٹ کا سماں مکھڑا ہے کہ آگ میں تراوٹ کا سماں یہ سوز و گداز قد رعنا! جیسے ہیرے کے منار میں گھلاوٹ کا سماں