گر جوہر امتیاز ہوتا ہم میں
گر جوہر امتیاز ہوتا ہم میں رسوا کرتے نہ آپ کو عالم میں ہیں نام و نگیں کمیں گہ نقب شعور یہ چور پڑا ہے خانۂ خاتم میں
گر جوہر امتیاز ہوتا ہم میں رسوا کرتے نہ آپ کو عالم میں ہیں نام و نگیں کمیں گہ نقب شعور یہ چور پڑا ہے خانۂ خاتم میں
دیکھ وہ برق تبسم بس کہ دل بیتاب ہے دیدۂ گریاں مرا فوارۂ سیماب ہے کھول کر دروازۂ میخانہ بولا مے فروش اب شکست توبہ میخواروں کو فتح الباب ہے
یاران نبی میں تھی لڑائی کس میں الفت کی نہ تھی جلوہ نمائی کس میں وہ صدق وہ عدل وہ حیا اور وہ علم بتلاؤ کوئی کہ تھی برائی کس میں
ہم گرچہ بنے سلام کرنے والے کرتے ہیں درنگ کام کرنے والے کہتے ہیں کہیں خدا سے اللہ اللہ وہ آپ ہیں صبح و شام کرنے والے
دل سخت نژند ہوگیا ہے گویا اس سے گلہ مند ہوگیا ہے گویا پر یار کے آگے بول سکتے ہی نہیں غالبؔ منہ بند ہو گیا ہے گویا
اے کاش بتاں کا خنجر سینہ شگاف پہلوے حیات سے گزر جاتا صاف اک تسمہ لگا رہا کہ تا روزے چند رہیے نہ مشقت گدائی سے معاف
ہر چند کہ دوستی میں کامل ہونا ممکن نہیں یک زبان و یک دل ہونا میں تجھ سے اور مجھ سے تو پوشیدہ ہے مفت نگاہ کا مقابل ہونا
اصحاب کو جو کہ ناسزا کہتے ہیں سمجھیں تو ذرا دل میں کہ کیا کہتے ہیں سمجھا تھا نبی نے ان کو اپنا ہمدم ہے ہے نہ کہو کسے برا کہتے ہیں
ہیں شہ میں صفات ذوالجلالی باہم آثار جلالی و جمالی باہم ہوں شاد نہ کیوں سافل و عالی باہم ہے اب کے شب قدر و دوالی باہم
یاران رسول یعنی اصحاب کبار ہیں گرچہ بہت خلیفہ ان میں ہیں چار ان چار میں ایک سے ہو جس کو انکار غالبؔ وہ مسلمان نہیں ہے زنہار