شاعری

ہمارے دکھوں کا علاج کہاں ہے

اگر ہمارے دکھوں کا علاج نیند ہے تو کوئی ہم سے زیادہ گہری نیند نہیں سو سکتا اور نہ ہی اتنی آسانی اور خوبصورتی سے کوئی نیند میں چل سکتا ہے اگر ہمارے دکھوں کا علاج جاگنا ہے تو ہم اس قدر جاگ سکتے ہیں کہ ہر رات ہماری آنکھوں میں آرام کر سکتی ہے اور ہر دروازہ ہمارے دل میں کھل سکتا ہے اگر ...

مزید پڑھیے

مجھے اچھا لگتا ہے

مجھے اچھے لگتے ہیں بادل جب وہ برستے ہیں اور آنکھیں جن میں کوئی بھی بسیرا کر سکتا ہے بکریاں اور بچے جو سڑک پار کر جاتے ہیں اور نہیں دیکھ پاتے اس آہنی ہاتھ کو جو ان کے تعاقب میں دوڑا چلا آتا ہے مجھے اچھے لگتے ہیں ڈاکئے کے قدم اور انسومنیا کی چائے اور بجھی بتی کا موٹر سائیکل جو اشارہ ...

مزید پڑھیے

مٹی تھی کس جگہ کی

بے فیض ساعتوں میں منہ زور موسموں میں خود سے کلام کرتے اکھڑی ہوئی طنابوں دن بھر کی سختیوں سے اکتا کے سو گئے تھے بارش تھی بے نہایت مٹی سے اٹھ رہی تھی خوشبو کسی وطن کی خوشبو سے جھانکتے تھے گلیاں مکاں دریچے اور بچپنے کے آنگن اک دھوپ کے کنارے آسائشوں کے میداں اڑتے ہوئے پرندے اک اجلے ...

مزید پڑھیے

ہوا جب تیز چلتی ہے

ہوا جب تیز چلتی ہے شکستہ خواب جب مٹیالے رستوں پر مراد امن پکڑتے ہیں جھکی شاخوں کے ہونٹوں پر کسی بھولے ہوئے نغمے کی تانیں جب الٹتی ہیں گزشتہ وہم کی آنکھیں مرے سینے میں گرتی ہیں ستارے جب لرزتے ہیں مری آنکھوں کی سرحد پر افق دھند لانے لگتا ہے مہک آتے دنوں کی پھیل جاتی ہے مشام جاں میں ...

مزید پڑھیے

بارش

تو آفاق سے قطرہ قطرہ گرتی ہے سناٹے کے زینے سے اس دھرتی کے سینے میں تو تاریخ کے ایوانوں میں در آتی ہے اور بہا لے جاتی ہے جذبوں اور ایمانوں کو میلے دسترخوانوں کو تو جب بنجر دھرتی کے ماتھے کو بوسہ دیتی ہے کتنی سوئی آنکھیں کروٹ لیتی ہیں تو آتی ہے اور تری آمد کے نم سے پیاسے برتن بھر ...

مزید پڑھیے

زندہ آدمی سے کلام

کبھی وقت کی سانس میں ہونٹ الجھا کے دیکھے ہیں تم نے کہ اس بد گماں موسموں کے مغنی کی تانیں نہاں خانۂ دل میں گہری خموشی کی ہیبت گراتی چلی جا رہی ہیں ازل سے ابد تک بپھرتے ہوئے سیل بے مائیگی میں کبھی دل اکھڑتے ہوئے شہر گرتے ہوئے دیکھ پائے ہو تم کبھی بھیگے بھیگے سے دیوار و در میں کہ بچپن ...

مزید پڑھیے

مجھے ڈر لگتا ہے

آؤ ہم آج ہی کھل کر رولیں جانے کب وقت ملے آنکھ میں جتنے بھرے ہیں آنسو آؤ ہم آج بہا دیں ان کو گھات میں عمر بھی ہے وقت بھی رفتار بھی ہے کون جانے کہ ملیں راستے کب منزل سے کون جانے کہ رہا ہوں گے سفر سے کب تک کون جانے یہاں کس رت کی ردا سے اتریں پھول جن میں تری مہکار نہ ہو کون یہ جان سکے تیرے ...

مزید پڑھیے

آنکھیں ترس گئی ہیں

اس گھر میں یا اس گھر میں تو کہیں نہیں ہے دروازے بجتے ہیں خالی کمرے تیری باتوں کی مہکار سے بھر جاتے ہیں دیواروں میں تیری سانسیں سوئی ہیں میں جاگ رہا ہوں کانوں میں کوئی گونج سی چکراتی پھرتی ہے بھولے بسرے گیتوں کی چاندنی رات میں کھلتے ہوئے پھولوں کی دمک ہے، یہیں کہیں تیرے خواب مری ...

مزید پڑھیے

پس منظر کی آواز

کسی بھولے نام کا ذائقہ کسی زرد دن کی گرفت میں کسی کھوئے خواب کا وسوسہ کسی گہری شب کی سرشت میں کہیں دھوپ چھاؤں کے درمیاں کسی اجنبی سے دیار کے میں جوار میں پھروں کس طرح یہ ہوا چلے گی تو کب تلک یہ زمیں رہے گی تو کب تلک کھلے آنگنوں پہ مہیب رات جھکی رہے گی تو کب تلک یہ جو آہٹوں کا ہراس ...

مزید پڑھیے

کہیں ٹوٹتے ہیں

بہت دور تک یہ جو ویران سی رہ گزر ہے جہاں دھول اڑتی ہے صدیوں کی بے اعتنائی میں کھوئے ہوئے قافلوں کی صدائیں بھٹکتی ہوئی پھر رہی ہیں، درختوں میں آنسو میں صحراؤں کی خامشی ہے ادھڑتے ہوئے خواب ہیں اور اڑتے ہوئے خشک پتے کہیں ٹھوکریں ہیں صدائیں ہیں افسوں ہے سمتوں کا حد نظر تک یہ تاریک سا ...

مزید پڑھیے
صفحہ 937 سے 960