شاعری

ایک منظر

منڈیروں پر رات رینگ رہی ہے اور کیاریوں میں پانی کی مہک سوئی ہوئی ہے سہمے دروازوں اور خوابیدہ روشن دانوں کے سائے میں چاندنی کا لحاف اوڑھے کوئی گلی سے گزرتا ہے نیند کے دالان میں دودھ بھرے برتن کے گرنے کی آواز آتی ہے لمس اور تنفس کے نم سے ہوا بوجھل ہے کروٹیں سانس لیتی ہیں اور کونے ...

مزید پڑھیے

دوام وصل کا خواب

پکی گندم کے خوشوں میں امڈتے دن کے ڈیروں میں اندھیرے کی گھنی شاخوں پرندوں کے بسیروں میں تھکے بادل سے گرتے نام کے اندر اترتی شام کے اندر دوام وصل کا اک خواب ہے جو سانس لیتا ہے مہکتی سر زمینوں میں مکانوں میں مکینوں میں ترے میرے علاقوں میں ہمارے عہد ناموں میں لرزتے بادبانوں میں کہیں ...

مزید پڑھیے

تری دنیا کے نقشے میں

تری دنیا میں جنگل ہیں ہرے باغات ہیں اور دور تک پھیلے بیاباں ہیں کہیں پر بستیاں ہیں روشنی کے منطقے ہیں پہاڑوں پر اترتے بادلوں میں رقص کرتا ہے سمندر چار سو اسی انبوہ کا حصہ نہیں ہوں میں کہاں ہوں میں میں تیرے لمس سے اک آگ بن کر پھیلنا تسخیر کی صورت بپھرنا چاہتا تھا اور اترا ہوں کسی ...

مزید پڑھیے

میرے پاس کیا کچھ نہیں

میرے پاس راتوں کی تاریکی میں کھلنے والے پھول ہیں اور بے خوابی دنوں کی مرجھائی ہوئی روشنی ہے اور بینائی میرے پاس لوٹ جانے کو ایک ماضی ہے اور یاد۔۔۔ میرے پاس مصروفیت کی تمام تر رنگا رنگی ہے اور بے معنویت اور ان سب سے پرے کھلنے والی آنکھ میں آسماں کو اوڑھ کر چلتا اور زمین کو بچھونا ...

مزید پڑھیے

موت دل سے لپٹ گئی اس شب

ایک خواب ہزیمت دنیا ایک آہٹ دوام خواہش کی ایک جوڑی قدیم ہاتھوں کی اور آنکھوں کے بند فرغل میں ایک خواہش ہمیشہ رہنے کی ایک بستر پرانی یادوں کا اور سویا ہوا دل وحشی آہنی انگلیوں کے پنجے میں اک گھنی تیرگی کے رستے میں ذائقہ بھولی بسری بارش کا ایک سایہ جھکا ہوا دل پر دیر تک آسماں سے ...

مزید پڑھیے

تم جو آتے ہو

دن نکلتے ہیں بکھر جاتے ہیں شہر بستے ہیں اجڑ جاتے ہیں دستکیں آہنی دروازے پر سر کو ٹکرا کے پلٹ جاتی ہیں گنبد خامشی گرتا ہی نہیں چلتی رہتی ہے ہوا کھیتوں میں دالانوں میں اور اپنے ہی تلاطم میں اتر جاتی ہے ہر طرف پھول بکھر جاتے ہیں دل کی مٹی پہ کوئی رنگ اترتا ہی نہیں آنکھ نظارۂ موہوم ...

مزید پڑھیے

آخری دن سے پہلے

بہت دن رہ لیا کوئے ندامت میں ہزیمت کے بہت سے وار ہم نے سہہ لیے ترا یہ شہر شہر جاں نہیں ہے ترے اس شہر میں اب اور کیا رہنا ہمارے خواب تیرے خار و خس میں تھے ہمارے لفظ تیری پیش و پس میں تھے کہ ہم ہر سانس تیری دسترس میں تھے ترے اجلے دنوں سے ہم کو کیا حصہ ملے گا گدا کے ہاتھ میں ٹوٹا ہوا ...

مزید پڑھیے

آگے بڑھنے والے

آگے بڑھنے والے بدن کو کپڑوں پر اوڑھتے اور چھریاں تیز کر کے نکلتے ہیں بھیڑ کو چیر کر راستہ بناتے ناخنوں سے نوچ لیتے ہیں لباس اور عزتیں- سرخ مرچوں سے ہر آنکھ کو اندھا کر دیتے ہیں اور بڑھ جاتے ہیں رعونت بھری مسکراہٹ کے ساتھ چیختے اور چپ کرا دیتے ہیں سر عام رقص کرتے ہیں اور گاڑیاں ...

مزید پڑھیے

وقت گزرتا نہیں

وقت کوئی شام نہیں جسے وحشت سے ڈھانپا جا سکے نہ کوئی گیت، جس کی لے ہمارے ہونٹوں کی گرفت میں ہو یہ ایک لا متناہی لا تعلق ہے وقت ٹھہرا رہتا ہے ان زمینوں پر جہاں سے نئے قافلے نکل پڑتے ہیں وقت گزاری کے کٹھن سفر پر گزشتہ بہت پیچھے رہ گیا جہاں تک کوئی سڑک نہیں جاتی گاڑی کی کھٹ کھٹ سے شہر ...

مزید پڑھیے

ہم کہ اک بھیس لیے پھرتے ہیں

کون سے دیس کی بابت پوچھے وقت کے دشت میں پھرتی یہ خنک سرد ہوا کن زمانوں کی یہ مدفون مہک بد نما شہر کی گلیوں میں اڑی پھرتی ہے اور یہ دور تلک پھیلی ہوئی نیند اور خواب سے بوجھل بوجھل اعتبار اور یقیں کی منزل جس کی تائید میں ہر شے ہے بقا ہے لیکن اپنے منظر کے اندھیروں سے پرے ہم خنک سرد ہوا ...

مزید پڑھیے
صفحہ 936 سے 960