مجھے اچھا لگتا ہے

مجھے اچھے لگتے ہیں
بادل جب وہ برستے ہیں
اور آنکھیں جن میں کوئی بھی بسیرا کر سکتا ہے
بکریاں اور بچے
جو سڑک پار کر جاتے ہیں
اور نہیں دیکھ پاتے اس آہنی ہاتھ کو
جو ان کے تعاقب میں دوڑا چلا آتا ہے
مجھے اچھے لگتے ہیں
ڈاکئے کے قدم اور انسومنیا کی چائے
اور بجھی بتی کا موٹر سائیکل
جو اشارہ کاٹتے ہوئے
رات میں راستہ بناتا گزر جاتا ہے
باغی نیند درخت اور خواب
جو اس بیداری کے موسم میں کہیں دکھائی نہیں دیتے
مجھے اچھے لگتے ہیں
فراغت اور دکھ سے بھرے دن
اور راتیں جب دور دور تک بارش ہوتی ہے
اور آبائی مکانوں کی وہ شام
جب بہنوں کو رخصت کیا جاتا ہے
پہاڑ کے پار کے اندھیارے کی جانب
آنسو اور دھند جن میں صاف دیکھا جا سکتا ہے
اور دل جنہیں نشانہ بنایا جاتا ہے
اور مٹی جس کی جانب ہمیں لوٹنا ہے
مجھے اچھے لگتے ہیں
دریچے جن سے ہوا گزرتی ہے
دروازے جو کبھی بند نہیں ہوتے
اور دوست جن کے کندھوں پر ہمیشہ ہاتھ رکھا جا سکتا ہے
اور تم
لپکتے ہوئے ہاتھوں اور دنیا کے درمیان
کیا کچھ موجود ہے