کر گئے کوچ کہاں
اتنی مدت دل آوارہ کہاں تھا کہ تجھے اپنے ہی گھر کے در و بام بھلا بیٹھے ہیں یاد یاروں نے تو کب حرف محبت رکھا غیر بھی طعنہ و دشنام بھلا بیٹھے ہیں تو سمجھتا تھا کہ یہ در بدری کا عالم دور دیسوں کی عنایت تھا سو اب ختم ہوا تو نے جانا تھا کہ آشفتہ سری کا موسم دشت غربت کی ودیعت تھا سو اب ختم ...