شاعری

۳۱ دسمبر

ایک اور سال بیت گیا اضطراب کا ایک اور شام ڈھل گئی بے چینیوں کی آج ایک اور دن کی شام کسی طرح ہو گئی کچھ دے دلا کے حال کو ماضی بنا دیا

مزید پڑھیے

ہم سفر

اک سفر کی شروعات ہو سکتی ہے تم اگر ہاں کہو تم اگر ہاں کہو شاہراہوں میں گلیوں میں بھٹکیں گے ہم کوئی منزل نہ ہو نہ ہو زاد سفر کوئی منزل نہ ہو نہ ہو زاد سفر ہم سفر ہم سفر ہم سفر ہم سفر اور بننے میں تم کو مہارت تو ہے خواب بنتے چلیں گے ڈگر سے ڈگر تم اگر ہاں کہو تم اگر ہاں کہو ہم سفر ہم سفر ...

مزید پڑھیے

قسطوں میں خواب

میں جب چھوٹا تھا تو چلتے چلتے خواب دیکھا کرتا تھا اکثر میں صرف خواب دیکھنے کے لیے ہی چلتا تھا صبح کو دوپہر کو شام کو رات کو گہری نیند سوتا تھا جو گہری نیند سوتے ہیں وہ خواب نہیں دیکھتے سارے خوابوں کا مرکزی کردار میں ہی ہوا کرتا تھا مگر میرے قریبی اور پیارے لوگ بھی اس میں شامل رہتے ...

مزید پڑھیے

آنسوؤں کے رتجگوں سے

سارے منظر ایک جیسے ساری دنیا ایک سی ناشپاتی کے درختوں سے کھجوروں کی گھنی شاخوں تلک دنیا اچانک ایک جیسی ہو گئی ہے مصر کے اہرام کی محزوں فضائیں دم بخود ہیں کوفہ و بغداد کے بازار میں کاظمین و مشہد اعراق سے نوحے نکل کر سرحد لبنان تک پہنچے ہوئے ہیں شہر دلی کے اندھیرے ظلمت لاہور سے ...

مزید پڑھیے

زمین اپنے بیٹوں کو پہچانتی ہے

زمین ایک مدت سے ہفت آسماں کی طرف سر اٹھائے ہوئے رو رہی ہے زمین اپنے آنسو بہت اپنی ہی کوکھ میں بو رہی ہے زمیں دل کشادہ ہے کتنی فلک کے اتارے ہوئے بوجھ بھی ڈھو رہی ہے فضا پر بہت دھند چھائی ہوئی ہے جواں گل بدن شاہزادے زمیں کے دلارے اجڑتی ہوئی بزم کے چاند تارے کٹی گردنوں گولیوں سے چھدے ...

مزید پڑھیے

بدلنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا

چلے تھے لوگ جب گھر سے تو اک وعدے کی تختی اپنی پیشانی پر رکھ کر لائے تھے جس کی گواہی میں سفر کو آگے بڑھنا تھا اور اس کے ساتھ خوابوں خواہشوں کے نام اس ویران گھر کو آگے بڑھنا تھا تو اک وعدے کی تختی تھی بہت دن تک جو روشن تھی سرابوں میں پرانی داستانیں جاگتی تازہ نصابوں میں بہت دن تک ہوا ...

مزید پڑھیے

پہلے تو شہر ایسا نہ تھا

اک بار چل کر دیکھ لیں شاید گزشتہ موسموں کا کوئی اک دھندلا نشاں مل جائے اور پھر سے فضا شاداب ہو اجڑا ہوا اک خواب ہو تصویر میں کچھ گرد باد باقیات منبر و محراب ہو اک بار چل کر دیکھ لیں پھر بند ہوتے شہر کے بازار کو جھانکیں ذرا اجڑی دکانوں میں کلاہ و جبہ و دستار کو اک شہر تازہ کار کو کچھ ...

مزید پڑھیے

عمر کا آخری دن

یہاں میرے اندر درختوں کی کتنی قطاریں سلگتی رہیں گی وہاں تیرے اندر تڑپتے ہوئے لفظ لمحے پرندے قطاروں میں بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں درختوں کے پیچھے کئی چاند ٹوٹے ہوئے ریزہ ریزہ لہو میں نہائے ہوئے کتنے سورج مزاروں کے کتبے! کہیں ڈھول کی تھاپ پر رقص مرگ مسلسل کہیں دلدلوں میں اترتے ہوئے ...

مزید پڑھیے

ڈرائنگ روم

تیرا جسم لہو ہے میرا جس کی بوندیں گلدستے کے پھول ہیں دیواروں پر تصویریں ہیں کشتی کشتی ڈول رہی ہے لیپ کے سائے یہ سب میری زنجیریں ہیں جن کو میرے ذہن کا آہن کاٹ رہا ہے کب تک میں زنداں میں بیٹھا آنے والے کل کو مشت خاک سمجھ کر ذرے ذرے کو بھینچوں گا درد کی آواز سے کب تک گیت سنوں ...

مزید پڑھیے

ڈیڈ ہاؤس

حنوط جسموں کے کارخانے میں لاش رکھی ہوئی ہے کس کی سفید کاغذ بدن پہ کس نے ستم کے سب نام لکھ دیے ہیں یہ پھول کل تک سحر کے آنگن میں کھل رہا تھا مگر سیاہی کے تنگ حلقوں میں گھر گیا تھا! کہ خواب زنجیر بن گئے تھے عذاب تعبیر بن گئے تھے کتاب کا گرد پوش جیسے شکستہ ہو کر بکھر گیا ہو یہ کس عبارت ...

مزید پڑھیے
صفحہ 886 سے 960