شاعری

طوفان میل

عتیقؔ اور اسلمؔ شعیبؔ اور سلیمؔ رئیسؔ اور آصفؔ نفیسؔ اور وسیمؔ یہ مکتب سے واپس ہوا قافلہ تو رستے میں سب نے یہی طے کیا چلو کھیلتے ہم چلیں ریل ریل عتیقؔ ہوں گے گارڈ اور انجن طفیلؔ یہ سنتے ہی بغلوں میں بستے لئے اور اک صف میں سیدھے کھڑے ہو گئے کھڑے آگے پیچھے یہ جب ہو چکے تو دامن ...

مزید پڑھیے

مقتل

میرے سینے پہ سر رکھ کے روتی رہی میری پلکوں سے پلکیں بھگوتی رہی میں بھی روتا رہا میرے سینے پہ سر رکھ کے سوتی رہی میں بھی سوتا رہا میری آنکھوں میں کچھ ڈھونڈھتی سی رہی میں بھی دیکھا کیا خامشی کے حجابوں میں ہلچل رہی میں کھڑا پر سکوں بت تڑپتا رہا وقت و حالات پھر درمیاں آ گئے دور ہوتے ...

مزید پڑھیے

سرور

دیکھ کے تجھ کو یہ آتا ہے کہ لکھوں میں غزل سوچتا ہوں میں یہی پھر کہ ضرورت کیا ہے حسن پہ تیرے یہ رعنائی تری شان جو ہے یہ تری زلفوں میں خم جو ہے سراپے کی شبیہ تیرے نینوں کی کجی جو ہے اداؤں پہ عروج سرخیٔ لب کہ جو مذبح ہے تمناؤں کا تیرا جوبن کہ جو شرمندۂ صد فتنہ ہے سکر یہ تیرے حضوری کا ...

مزید پڑھیے

گڑیا ایک بنا دو

اچھی امی پیاری امی گڑیا ایک بنا دو ننھی منی پیاری امی گڑیا ایک بنا دو گورا گورا مکھڑا ہو اور کالی کالی آنکھیں لمبے لمبے بال سنہری مر مر جیسی باہیں سکھیاں دیکھیں دیکھ کے بھرتی رہ جائیں بس آہیں اچھی امی پیاری امی گڑیا ایک بنا دو ننھی منی پیاری پیاری گڑیا ایک بنا دو نیلے رنگ کی پہنی ...

مزید پڑھیے

آوارگی

خشک پتوں کی سیج پر سرد راتوں کے درمیاں تیری یادوں کی چھاؤں میں لرزاں لرزاں ترساں ترساں ماضی کا کوئی لمحہ حال کی دہلیز پر آہستہ آہستہ غلطاں غلطاں قدم رکھتا ہے تو یخ بستہ جنوں پا بجولاں رو بہ رو دوڑ جاتا ہے

مزید پڑھیے

محبوبہ اور موت

محبوبہ اور موت میں اک مماثلت ہے کہ مجھے دونوں سے محبت ہے اے موت کیا بتاؤں کہ تیرے جیسا کون ہے کہ جس سے مجھ کو پیار ہے کہ اس پہ سب نثار ہے میں چاہتا ہوں اس کو بھی تیری طرح تیری طرح ہاں وہ بھی تیرے جیسی ہے میں ڈھونڈھتا ہوں دونوں کو خلاؤں میں فضاؤں میں اے موت اب کہاں ہے تو کدھر میں ...

مزید پڑھیے

شب ظلمت

ہجر کی رات گزرتی ہی نہیں کب تلک بزم پہ تاریکی رہے کب تلک شومیٔ قسمت کا گلا کب تلک درد کے بڑھنے کی فغاں کب تلک بے کسی کا شکوہ رہے کب تلک بے بسی کا نالہ رہے کب تلک ہوں گی رواں حالتیں یہ کب تلک چھائی رہیں ظلمتیں یہ نور اٹھتا ہے مگر کیا کیجیے ظلم کی کالی گھٹا چار سو ہے

مزید پڑھیے

رو بروئے مرگ

موت سے کیوں ڈروں میں آج بھلا موت تو زندگی کی وسعت ہے جس ممات سے ڈرتے ہیں لوگ وہ تو پا چکا تھا بہت پہلے میں میرے ارمانوں کی موت میرے جذبات کی موت اپنوں سے ملاقات کی موت ان سارے محاکات کی موت کون روئے گا بھلا اس کمیں کی کھٹیا پر مر گیا تھا ان کے لئے ایک عہد ہی پہلے سب مجھے چھوڑ چلے ...

مزید پڑھیے

کشٹ

کیسے چلتے سمے وہ روئی گلے سے لگ کر بلک بلک کر پھر آنکھوں کو چومنا اس کا اچک اچک کر دور ہٹنا اور دیکھنا مجھ کو ٹھٹک ٹھٹک کر گر پڑنا پھر کھلی ہوئی بانہوں میں تھک کر شام جدائی ماں سے محبوبہ تک کتنے روپ تھے اس کے

مزید پڑھیے

فتح کا غم

اولیں شہر کی تسخیر میں پہلو تھے بہت رنج کے خوف کے حیرت کے شکیبائی کے پھر یہ دیکھا کہ تن و جاں کے اثاثے کے عوض مٹی ہم جس پہ قدم رکھتے ہیں جس کی ٹھوڑی پہ لہو رنگ علم رکھتے ہیں اس کی ممتا کی حرارت سے الگ چیز نہیں جس میں ہم اپنا نسب اپنا جنم رکھتے ہیں اپنے ہونے کا بھرم رکھتے ہیں

مزید پڑھیے
صفحہ 882 سے 960