شاعری

نئے خوف کا آزار

مہرباں دن وہ مرا درد شناس اپنی زنبیل کے صد رنگ ذخیرے سے مجھے روز دیتا رہا سوغات نئی مجھ پہ کرتا رہا ہر روز عنایات نئی دل کو برماتا رہا خوں کو گرماتا رہا آئی جس وقت مگر رات نئی اپنا سرمایہ سمیٹے ہوئے مستور ہوا دل مرا فیض گریزاں سے شکستہ خاطر شب کے زنداں میں گرفتار غریب و نادار اک ...

مزید پڑھیے

جانا پہچانا اجنبی

چار شناسا دیواروں میں اک انجانا کمرہ اور ان جانے کمرے میں اک انجان شناسا میں دیواروں سے مکالمہ نا ممکن سا اپنے آپ سے باتیں کرنی بھی مشکل چار شناسا دیواریں تو میرا پرتو میرا عکس اور انہی کا سایہ میں

مزید پڑھیے

حرف یقیں

ایک دن وقت کا جھلسا ہوا میلا چہرہ اک دل افروز جلا پائے گا سرگزشت غم دوراں کا مصنف اک دن ساری نا گفتہ حکایات کو جائے گا وہ دل آرام سے موسم وہ خنک وادیٔ رنگ جن کی خوشبو پہ اجارہ رہا سفاک ستم رانوں کا جن کے پھولوں میں پھلوں میں تھا لہو سیکڑوں جاں سوختہ انسانوں کا اب وہ تاریخ زبوں وقت ...

مزید پڑھیے

دشت عدم کا سناٹا

کیا کیا منظر دیکھ رہی ہیں آنکھیں میری کب سے ان اجلے شیشوں پر سائے لرزاں ہیں کچھ دھندلائے منظر ارمانوں کی جادو نگری سے سینے کی تاریکی سے جگنو کی مانند جھلکتے رہتے ہیں رنگ بدلتے رہتے ہیں بند اگر ہو جائیں یہ آنکھیں سارے منظر سارے پس منظر بے الفاظ بیاں کی صورت اک کورے کاغذ میں ڈھل ...

مزید پڑھیے

اجل سرائے تیرگی

میں گھپ اندھیرے میں جا چھپا تھا کہ روشنی میری جاں کی بیری مرا تعاقب نہ کرنے پائے مگر اندھیرے گرسنہ جاں عنکبوت کی شاطری دکھا کر مجھے نحیف و نزار پا کر خود اپنے جالے میں کس کے میرے بدن کو مسمار کر چکے تھے!

مزید پڑھیے

سچا دیا

اپنی پچھلی سالگرہ پر میں یہ سوچ رہا تھا کتنے دیے جلاؤں میں؟ کتنے دیے بجھاؤں میں؟ میرے اندر دیوؤں کا ایسا کب کوئی ہنگامہ تھا؟ میں تو سر سے پانو تلک خود ایک دیے کا سایہ تھا عمر کی گنتی کے وہ دیے سب جھوٹے تھے بے معنی تھے ایک دیا ہی سچا تھا اور وہ میری روح کے اندر جلتا تھا

مزید پڑھیے

حصار اندر حصار

میرے ارد گرد اک حصار ہے اک حصار جس کے گیر و دار میں بے اماں غبار میں میرا جسم میری ذات تار تار ہے وقت ایک لفظ جو اسیر اپنے معنوی بہشت میں وقت اک تسلسل خیال جس کے دوسرے اک خلاے بے کراں کی جاں کشاں گرفت ہے اس حصار سے اگر نکل سکوں (جسم منجمد چٹان برف کی میں اگر پگھل سکوں) ریزہ ریزہ ...

مزید پڑھیے

وارث

وہ ابنارمل نہیں تھا صرف اس کو نارمل بننے کی حسرت تھی کئی خانوں میں اس کی زندگی بٹنے لگی تھی وہ اپنی کوشش نا معتبر سے تنگ آ کر نیم جاں ہو کر ایک خانے میں پنہ لینے لگا تھا بنی آماج گاہ تیر نفرت شخصیت اس کی اسے بھی خود سے نفرت ہو چکی تھی مگر اس نفرت مانوس کی تکرار سے اس نے درشت و نا ...

مزید پڑھیے

خالق اور تخلیق

شاعر نے کہا نظم لکھی ہے میں نے پوشاک خیالات کی سی ہے میں نے اک آب نئی سخن کو دی ہے میں نے تاریکیوں میں روشنی کی ہے میں نے تب نظم نے آہ سرد بھر کے یہ کہا میں دست ہوس سے بھی گریزاں اب تک تھی صورت بوئے گل پریشاں اب تک لیکن یہ کیا کہ ہو گئی ہوں میں آج الفاظ کے آواز کے پنجرے میں اسیر پڑھنے ...

مزید پڑھیے

نظم

نہیں میں کسی یونانی المیے کا مرکزی کردار نہیں نہ ہی میں اس لیے بنا تھا میں تو ایک خاموش تماشائی ہوں ہزاروں سال پتھروں میں جکڑے کسی مرکزی کردار کی آنکھیں جب شاہین سے نچوائی جاتی ہیں اور جب وہ درد سے کراہ کر کہتا ہے میں تمام پیار کرنے والوں کے لیے ایک کربناک منظر ہوں یا سالہا سال ...

مزید پڑھیے
صفحہ 883 سے 960