طوفان میل
عتیقؔ اور اسلمؔ شعیبؔ اور سلیمؔ
رئیسؔ اور آصفؔ نفیسؔ اور وسیمؔ
یہ مکتب سے واپس ہوا قافلہ
تو رستے میں سب نے یہی طے کیا
چلو کھیلتے ہم چلیں ریل ریل
عتیقؔ ہوں گے گارڈ اور انجن طفیلؔ
یہ سنتے ہی بغلوں میں بستے لئے
اور اک صف میں سیدھے کھڑے ہو گئے
کھڑے آگے پیچھے یہ جب ہو چکے
تو دامن قمیصوں کے پکڑے گئے
قمیصوں کے دامن پکڑ جب چکے
سیکنڈ اور انٹر کے ڈبے بنے
غرض بن چکی جب یہ چھوٹی سی ریل
چھٹا ننھے بچوں کا طوفان میل
چھکا چھک چھکا چھک چھکا چھک چلا
بڑی زور سے سیٹی دیتا ہوا
منڈیر اور کھائی پہ چڑھتا ہوا
بلندی سے نیچے اترتا ہوا
کبھی زور میں آ کے تیز ہو گیا
کبھی رک کے انجن نے پانی لیا
غرض دوڑتا گونجتا گھومتا
گلی سے گلی کو بدلتا ہوا
چلا جا رہا تھا نہ تھی کچھ خبر
کہ اتنے میں خطرہ ہے آیا نظر
کہیں سامنے سے گدھا چیختا
چلا آ رہا تھا اچھلتا ہوا
کبھی اگلے پاؤں سے ہوتا کھڑا
دو لتی کبھی زور سے پھینکتا
جو آتے ہوئے اس نے دیکھا یہ میل
تو رخصت ہوئی اس کی ساری کلیل
ادھر وہ وہاں سے پھرا چیختا
ادھر میل بھی جانے کس سمت گیا