شام
تو آ گئی شام سرمئی وحشت و ہزیمت کے سائے سائے میں درد ہا درد اک نئی نظم بن رہا ہوں درخت آسیب زادگاں دیو پیکراں چہچہے کراہیں یہ پات نوحے پہ سینہ کوبی میں گم عزا دار شاخچے برچھیوں کے پھل غنچے زخم نا آشنائے مرہم گھنے درختوں میں زمزمہ ساز اپنی اپنی دھنوں کو ترتیب دے رہے ہیں لہکتے ...