شاعری

شام

تو آ گئی شام سرمئی وحشت و ہزیمت کے سائے سائے میں درد ہا درد اک نئی نظم بن رہا ہوں درخت آسیب زادگاں دیو پیکراں چہچہے کراہیں یہ پات نوحے پہ سینہ کوبی میں گم عزا دار شاخچے برچھیوں کے پھل غنچے زخم نا آشنائے مرہم گھنے درختوں میں زمزمہ ساز اپنی اپنی دھنوں کو ترتیب دے رہے ہیں لہکتے ...

مزید پڑھیے

نئے سر کی تمثیل

کامنی خواب کی لو میں ہنستی ہوئی کامنی سولہ برس کی تقویم میں فصل گل کا کوئی تذکرہ تک نہ تھا میں نے بتیس بتیس جھڑ رتیں کاٹ دیں اب جو تمثیل کے ایک وقفے میں تم سے ملا ہوں تو سانسوں میں نم چال میں ان زمانوں کا رم جی اٹھا ہے جو عہد زمستاں میں یخ تھے سقر سا سقر کامنی خندۂ گل کی کل زندگی ایک ...

مزید پڑھیے

میں کیا کہتا تھا

میں یہ کہتا تھا کہ نوحہ نہ کہو کھیلتی تتلیوں ہنستی ہوئی کلیوں کے قصیدے لکھو یہ جو امکاں میں کوئی باس دمکتی ہے اسے لفظ میں لاؤ کسی دل میں لکھے لفظ جو دل کے دباؤ کو گھٹا دیتا ہے دل جو اک حشر اٹھا دیتا ہے میں یہ کہتا تھا چہکتی ہوئی چڑیوں کے لیے گیت لکھو ان درختوں سے لپٹ جاؤں جو جلتے ...

مزید پڑھیے

میں عجب آدمی ہوں

میں عجب آدمی ہوں رائیگانی کے تسلسل نے مجھے توڑ دیا میری پونجی مرے قرطاس و قلم کچھ کتابیں پئے تسکین جنوں کون طالب ہے بھلا مایۂ بے مایہ کا کوئی جاگیر نہیں زندگی شعر کے میلے میں گنوا دی میں نے اس پہ نازاں تھا کہ ہر لفظ مرے حلقۂ احساس میں ہے اس پہ فاخر تھا کہ ہیں خواب مرے کیسے ...

مزید پڑھیے

بت ساز

میں نے کیا سوچ کے صحرا میں دکاں کھولی ہے لب لعلیں کے تصور میں منگائے یاقوت نجم لایا ہوں کہ ترتیب ہو سلک دنداں مہ یک رو بھی تو درکار ہے ابرو کے لئے دور افق پار سے تھوڑی سی شفق لایا ہوں خون میں گوندھ کے بھٹی میں تپاؤں گا اسے تب کہیں سرخیٔ رخسار ہویدا ہوگی میں نے تیار کیا خاک کواکب سے ...

مزید پڑھیے

زر ناب

اک خواب کے فاصلے پہ لہو ہے کہسار کے سرمئی کنارے وادی سے شفق اچھالتے ہیں جی میں یہ بھرا ہوا سنہرا بھیتر میں رکا ہوا دسہرہ کاغذ پہ نمو کرے گا کب تک اے حرف ستارہ ساز اب تو اٹھتی ہے قنات روشنی کی ظلمت کا شعار ہے اکہرا خفتہ ہے جہت جہت اجالا امکاں ہے بسیط اور گہرا

مزید پڑھیے

اسکول

اجلی دھوپ ہے فرش گیہ پر اجلی دھوپ میں فرش گیہ پر روشن اور درخشاں لمحوں کی شبنم ہے سبز درختوں میں خنداں چہروں کی چاندی ہے سونا ہے ان لمحوں سے ان پھولوں سے سبز درختوں کے پتوں سے جز دانوں کی جیبیں بھر لو کل جب سورج زیست کی چھت پر برف کی صورت جم جائے گا کل جب راتیں راکھ کی صورت بجھ ...

مزید پڑھیے

مقتل کی بازدید

بلا کی پیاس اس کی آنکھ میں ہے حجاز کی سرزمیں پہ اس سال اس قدر بارشیں ہوئی ہیں کہ خشک تالاب خون ناحق سے بھر گئے ہیں لہو کی پیاس اس کی آنکھ میں ہے نفس میں بارود جس کی قاتل صدا کا شعلہ قدم قدم تہنیت کے رستے رواں ہوا تو وہ نخل جس کی جڑیں زمینوں کے درد میں تھیں جھکا کچھ ایسے کہ جیسے حال ...

مزید پڑھیے

تیرا پار اترنا کیسا

بہتے دن کا گدلا پانی کچھ آنکھوں میں کچھ کانوں میں اور شکم میں نا آسودہ درد کی کائی اس دریا میں لمحہ لمحہ ڈوبنے والے تیرا جینا مرنا کیسا؟ تیرا پار اترنا کیسا؟ کون سفینہ سوچتی عمروں کے ساحل سے تودہ تودہ گرتی شاموں کے پایاب سے تیری جانب آئے گا ڈوبنے والے! تیرا پار اترنا کیسا؟

مزید پڑھیے

نومبر کے پہلے ہفتے پر ایک نظم

خنک ہوا کا برہنہ ہاتھوں سے زرد ماتھے سے پہلا پہلا مکالمہ ہے ابھی یہ دن رات سرد مہری کے اتنے خوگر نہیں ہوئے ہیں تو پھر یہ بے وزن صبح کیوں بوجھ بن رہی ہے سواد آغاز‌‌ خشک سالی میں کیوں ورق بھیگنے لگا ہے دھواں دھواں شام کے الاؤ میں کوئی جنگل جلے کہ روٹھی ہوئی تمنا خزاں کا پانی کوئی ...

مزید پڑھیے
صفحہ 870 سے 960