شاعری

وصال

عجیب وہ سیل تھا کہ جس نے کنار دریا کی سرحدوں میں نئے اضافے کیے ہیں تازہ زمین آباد کر گیا ہے عجیب وہ دھوپ تھی جو پیش از سحر کی ساعت کے گھر میں اتری تو جیسے سوئے ہوئے لبوں پر نشان الفت لگا گئی ہے عجیب لمحہ تھا جس نے سر پر چمکتے سورج کے گرم رستے پہ پا برہنہ سفر کیا ہے وہ دھوپ تیرے جمال ...

مزید پڑھیے

نظم

شام ڈھلے تو میلوں پھیلی خوشبو خوشبو گھاس میں رستے آپ بھٹکنے لگتے ہیں زلف کھلے تو مانگ کا صندل شوق طلب میں آپ سلگنے لگتا ہے شام ڈھلے تو زلف کھلے تو لفظوں ان رستوں پر جگنو بن کر اڑنا راہ دکھانا دن نکلے تو تازہ دھوپ کی چمکیلی پوشاک پہن کر میرے ساتھ گلی کوچوں میں لفظو منزل منزل ...

مزید پڑھیے

ترک وعدہ کہ ترک خواب تھا وہ

ترک وعدہ کہ ترک خواب تھا وہ کام سب ہو چکا جو کرنا تھا بھر چکا جام شرط وصل جسے صبح تک، آنسوؤں سے بھرنا تھا وہ سخن اس کے مدعا میں نہیں مجھ کو جس بات سے مکرنا تھا کوئی تقسیم کار مہر و نجوم یا حساب شب نزول کوئی دشت لاحاصلی کی محدودات شہر محرم کا عرض و طول کوئی کچھ نہیں درمیاں جزا نہ ...

مزید پڑھیے

ایذرا پاؤنڈ کی موت پر

تجھ کو کس پھول کا کفن ہم دیں تو جدا ایسے موسموں میں ہوا جب درختوں کے ہاتھ خالی ہیں انتظار بہار بھی کرتے دامن چاک سے اگر اپنے کوئی پیمان پھول کا ہوتا آ تجھے تیرے سبز لفظوں میں دفن کر دیں کہ تیرے فن جیسی دہر میں کوئی نو بہار نہیں

مزید پڑھیے

آئنہ روشن خط زنگار سے

چاند کے سائے میں لو دیتا بدن ٹمٹماتے ہونٹ میٹھی روشنی گھولنا پیالوں میں امرت گھولنا کھولنا الزام سارے کھولنا جو بدن ملتے سمے کھلتے نہیں شمع جلنے دوستی پر سچ اترنے کی گھڑی آنے کو ہے دل میں جتنا کھوٹ تھا سب پڑھ لیا اس آنکھ نے آنکھ نے اپنی قسم توڑی نہیں دستخط میرے بھی ہوتے اختتام ...

مزید پڑھیے

سخن درماندہ ہے

خنک موسم نہیں گزرا سفر سورج کرے تو ابر اس کے ساتھ چلتا ہے ابھی ندی کے پانی پر ہوا کے تازیانے سے نشاں پیدا نہیں ہوتا تبر کی ضرب کاری سے، شاخوں سے زمیں پر پتا پتا حرف گرتے ہیں کوئی فقرہ شجر کے زخم مہمل کی پذیرائی نہیں کرتا لہو معنی نہیں دیتا تو پھر قرطاس احمر ہو کہ ابیض رنگ پیراہن ...

مزید پڑھیے

اک حرف فسردہ داغ میں ہے

اک حرف فسردہ داغ میں ہے اک بات بجھے چراغ میں ہے اک نام لہو کی گردشوں میں طوفان میں ڈولتا سفینہ ڈوبے نہ بھنور کے پار اترے اک شام کہ جس کے بام و در کو ہاری ہوئی صبح سے شکایت روٹھے ہوئے چاند کی تمنا اک راہ نورد جو یہ چاہے پاؤں نہ حد وفا سے نکلے سر سے نہ سفر کا بار اترے

مزید پڑھیے

آخری پیڑ کب گرے گا

زمیں کی یہ قوس جس پہ تو مضطرب کھڑی ہے یہ راستہ جس پہ میں ترے انتظار میں ہوں زمیں کی اس قوس پر افق پر قطار اندر قطار لمحات کے پرندے ہمارے حصے کے سبز پتے سنہری منقار میں لیے جاگتی خلاؤں میں اڑ رہے ہیں زمیں کی اس قوس پر افق پر ہے نا بسر کردہ زندگی کی وہ فصل جس کا ہمیں ہر ایک پیڑ کاٹنا ...

مزید پڑھیے

سدھائے ہوئے پرندے

سوال بچے نے جو کیے تھے جواب ان کا دبی زباں سے وہی دیا ہے جو مجھ کو اجداد سے ملا تھا وہی پرانے سوال اس کے زمیں اگر خام ہے تو اس پر ہمارے پختہ مکان کیوں ہیں؟ اگر گلابوں کو رنگ خورشید سے ملا ہے تو دھوپ کا حسن کون سے پھول کی عطا ہے؟ وہی پرانے سوال اس کے وہی پرانا جواب میرا وہی گرہ وارد ...

مزید پڑھیے

موت

زندگی کو اک جوے کی طرح کھیلا عمر بھر اور کوئی بازی کسی منزل پہ بھی ہارا نہیں داؤں جتنے بھی لگائے سب میں کچھ پاتا گیا کیا ہوا کرتا ہے کھونا یہ کبھی جانا نہیں مل گیا آخر میں لیکن ایک ایسا بھی حریف حیف جس سے ہار بیٹھا میں خود اپنا ہی وجود چال کچھ ایسی چلی اس نے کہ سب کچھ لٹ گیا ہو گیا ...

مزید پڑھیے
صفحہ 871 سے 960