میں کیا کہتا تھا

میں یہ کہتا تھا کہ نوحہ نہ کہو
کھیلتی تتلیوں ہنستی ہوئی کلیوں کے قصیدے لکھو
یہ جو امکاں میں کوئی باس دمکتی ہے
اسے لفظ میں لاؤ کسی دل میں لکھے
لفظ جو دل کے دباؤ کو گھٹا دیتا ہے
دل جو اک حشر اٹھا دیتا ہے


میں یہ کہتا تھا
چہکتی ہوئی چڑیوں کے لیے گیت لکھو
ان درختوں سے لپٹ جاؤں
جو جلتے ہیں مگر سایہ کناں رہتے ہیں
ورنہ دل صرف خزاں رہتے ہیں


ابر کی بات کرو
اشک تہ چشم دبے رہنے دو


میں یہ کہتا تھا
کہیں دور کھنکتی ہوئی قلقاری کو
اپنے احساس کی کیاری میں نمو پانے دو
وہ جو فردا کے چمن میں ہے نگار ممکن
اسے الفاظ کی مہکار میں سو جا نے دو


میں یہ کہتا تھا
مگر کیا میں یہی کہتا تھا