شاعری

اظہار

مجھے اور کچھ نہیں کہنا جو کہنا تھا وہ کہہ ڈالا جو سہنا تھا وہ سہہ ڈالا تمہارے شہر میں مجھ کو ملی ہے درد کی دولت چلو جو بھی یہاں پایا تمہاری چاہ میں پایا قسم لے لو کہ جیون میں کوئی خواہش نہ تھی میری کوئی حاجت نہ تھی میری بس ان نینوں کو دیکھا تو نہ جانے کیا ہوا مجھ کو اچانک بے خودی ...

مزید پڑھیے

نارسائی

یہ سمندر کئی بار اچھلا ہے ہر بار موجوں نے دور ان بلند اور بالا چٹانوں کے اس پار جانے کی خواہش میں جستیں لگائی ہیں اس طرح اچھلی ہیں جیسے ادھر کی فضا جو ابھی تک رسائی سے باہر تھی اب دام نظارہ میں آ چکی ہے مگر ان چٹانوں سے اس پار کی وسعتیں اب بھی نادیدہ ہیں آج بھی وہ جو دیوار کی دوسری ...

مزید پڑھیے

ان سے ملیے

کہنے کو تو بے بی ہیں یہ سچ پوچھو تو نانی ہیں یہ آفت کی پرکالہ کہیے شیطاں کی بھی خالہ کہیے شاہینہ کی چوٹی کھینچی فرزانہ کی کاپی لے لی اس کو مارا اس کو جھپٹا کام یہی ہے سارے دن کا آشا ہے اک روز گگن پر چمکیں گی یہ تارا بن کر تتلی اک فردوس کی ہیں یہ ننھی منی گول سی ہیں یہ آشاؤں کا درپن ...

مزید پڑھیے

پھول چاند گیت

ہیں شگوفے ننھے ننھے پھول لیکن ہم بنیں گے ایک دن پھول بن کر مسکرانا ہم سکھائیں گے جہاں کو دوستو ہیں ستارے ننھے ننھے چاند لیکن ہم بنیں گے ایک دن چاند بن کر جگمگانا ہم سکھائیں گے زمیں کو دوستو بول ہیں ہم ننھے ننھے گیت لیکن ہم بنیں گے ایک دن گیت بن کر دل پہ چھانا ہم سکھائیں گے جہاں کو ...

مزید پڑھیے

ننھی چیزیں

تھا اندھیرا ہر طرف راہ بھی ملتی نہ تھی ایک ننھا سا دیا روشن ہوا اور اندھیرا چھٹ گیا اک مسافر رات کو کھا رہا تھا ٹھوکریں چاند کی ننھی کرن چھٹکی ذرا اور رستہ مل گیا تھا پریشاں دیر سے ایک دہقاں دھوپ میں ایک ٹکڑا ابر کا آیا وہاں اور سایہ ہو گیا باغ میں اڑتی تھی دھول سارے پتے زرد ...

مزید پڑھیے

کھلندڑا

امتحاں کی رات اور میں جھڑکیاں سنتا رہوں ہر عنایت ہر کرم کو مسکرا کر میں سہوں ہوک سی دل میں اٹھے اور کچھ نہ میں پھر بھی کہوں اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں بن کے رٹو پاس کر جاؤں مری فطرت نہیں امتحاں میں دوستوں سے لوں مدد عادت نہیں مہرباں ہوں ماسٹر ایسی مری قسمت نہیں اے غم دل ...

مزید پڑھیے

دہلی کی سیر

آؤ بچو سیر کرائیں بھارت کا دل تم کو دکھائیں بھارت کا دل کیا ہے بولو دنیا دیکھو آنکھیں کھولو ہر لب پر ہے جس کا فسانہ دہلی ہے وہ شہر پرانا شہر کہ جس میں میرؔ نے گائے رنج و خوشی کے دل کش نغمے شہر کہ جس میں غالبؔ نے بھی چھیڑیں شیریں غزلیں اپنی شہر کہ جس میں شاہ ظفرؔ نے غزلیں لکھیں لکھے ...

مزید پڑھیے

آخری خط

رات کا وقت ہے آہوں کا دھواں ہو جیسے چاند خاموش ہے روٹھی ہوئی قسمت کی طرح سرمئی طاق میں مٹی کا دیا جلتا ہے کروٹیں لیتی رہی اونگھتے کمرے کی فضا اور میں رات کے روتے ہوئے سناٹے میں پڑھ رہا ہوں کہ جسے عہد وفا کہتے ہیں ساتھ دیتا نہیں تاریکی میں سائے کی طرح شدت کرب میں ڈوبے ہوئے لمحوں ...

مزید پڑھیے

اسی کے لیے

میں نے دیکھی نہیں خواب بنتی ہوئی انگلیاں جن کا لمس گداز وقت کے سرد گالوں سے بہتا ہوا میرے ہونٹوں پہ آیا تو صدیوں کی نمکینیاں سنگ بستہ دلوں کے سمندر میں ابھرے پہاڑوں کا اک سلسلہ بن چکی تھیں وہ کیا سلسلہ تھا جو اک گود سے گور تک ریشمی تار سا تن گیا جس پہ چلتے زمانے خداوند اعلیٰ کے ...

مزید پڑھیے

ع

دوسرا کون ہے کون ہے ساتھ میرے اندھیرے میں جس کا وجود اپنے ہونے کے احساس کی لو تیز رکھتے ہوئے میرے سہمے ہوئے سانس کی راس تھامے ہوئے چل رہا ہے دیا ایک امید کا جل رہا ہے کہیں آبشاروں کے پیچھے گھنی نیند جیسے اندھیروں میں صحرا کی لا سمت پہنائی میں پاؤں دھنستے ہوئے سانس رک رک کے چلتے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 848 سے 960