شاعری

مجھے خبر ہے مجھے یقیں ہے

مجھے خبر ہے یہ آبنوسی چٹان جو دوب کے سبز تختے پہ آ گری ہے نئی سبک نرم پتیوں کا سنگھار پی کر سنہرے لمحوں کی سانس میں پھانس بن کر اٹک گئی ہے مجھے یقیں ہے کہ موسموں کے طلسم یہ تیرگی اڑا کر اسی سلگتی چٹان پر دوب کی سبز زلفیں بکھیر دیں گے مجھے یقیں ہے مرے کٹے بازوؤں کی طاقت مری رگوں سے ...

مزید پڑھیے

ببول کے درخت سے کہو

ببول کے درخت سے کہو ابھی مشام جاں میں ہر سنگھار کی شگفتگی بڑے ہی انہماک سے بہار پاش ہے یہاں جو مڑ کے دیکھتا ہوں ادھ جلے گلاب کا بدن شہادتوں کے رمز پر سنگھار بھی لٹا گیا جو مڑ کے دیکھتا ہوں فاختہ کا احمریں لہو جبین جور کی سبھی رعونتیں مٹا گیا مرے خلاف سازشوں کا یہ مہیب سلسلہ مری ...

مزید پڑھیے

ہم خواب زدہ

ہم خواب زدہ پیلے موسم کے انگاروں سے جلے ہوئے پلکوں میں رنگ برنگے خاکے بھرے ہوئے سانسوں کو روکے ہوئے مسلسل خوابیدہ ہیں دیکھ رہے ہیں خود کو جنگل اور پہاڑوں کے شانوں پر اڑتے ہوئے آگ اگلتے جھرنوں کی بانہوں میں نغمے گاتے ہوئے خوش پیکر روپوش پرندوں کے ہمراہ فضا کی وسعت کو لرزیدہ کرتے ...

مزید پڑھیے

انبساط ازلی

اونچی نیچی دوب پر لہراتا ہوا کالا ناگ جھیل کے بانہوں سے پھوٹتا ہوا جوالامکھی رنگ برنگے پنچھی کو پنجوں میں دبائے ہوئے باز چٹانوں کے پیچھے مردہ جانور کی صاف و شفاف ٹھٹھری پر بھاگتے ہوئے سیاہ چوہوں کی قطار چاندنی رات میں مچھلی پر جھپٹتا ہوا اودبلاؤ پتنگے کو پکڑنے کے لیے لپکتی ...

مزید پڑھیے

گلابی چونچ

گلابی چونچ میں کیڑے لیے اڑتی ہے گوریا جدھر اک آشیاں میں اس کے بچوں نے ابھی آنکھیں نہیں کھولیں مگر ہیں بھوک سے بے کل مچھیرے صبح کی دھندھلی رداؤں میں پرانے چھپروں کی کوکھ سے شانوں پہ رکھ کر جال نکلے ہیں وہیں پر کھانستے ہیں چند محنت کش الاؤ کے کنارے بیڑیاں پی کر فلک پیما عمارت کے ...

مزید پڑھیے

دھنک

ایک کتا جھاڑیوں میں لا وارث نو مولود بچے کی حفاظت کر رہا تھا ایک ماں اپنے ننھے بچے کے گال پر کاجل کا ٹیکہ لگا رہی تھی ایک معصوم بچے کی انگلی پکڑ کر ایک بوڑھا اور نا بینا شخص سڑک پار کر رہا تھا رامش و رنگ میں ڈوبی ہوئی برات میں ہنڈیوں کو اپنے سروں پر مزدور اٹھائے ہوئے تھے میری ...

مزید پڑھیے

سوکھی ٹہنی پر ہریل

ہم چشموں کے غول مگن ہیں شاخوں پر خوش رفتار ہوائیں پنکھے جھلتی ہیں گولر کے کچے پھل بھی ہر جانب ہیں میٹھے پانی والی جھیل ہے پہلو میں موسم کی شطرنجی چالیں عنقا ہیں کوئی شکاری بھی اس سمت نہیں آتا ہرے بھرے جنگل کی مشفق بانہوں میں رات گئے جانے کیا برسا ہے دل پر الگ تھلگ برگد کی سوکھی ...

مزید پڑھیے

یدھشٹھر

ابھی چیڑ کے جنگلوں سے گزرنا بہت جاں فزا ہے کئی میل کے بعد برفیلے تودوں کا صحرا ملے گا جہاں سرد پروائیوں کے تھپیڑے تھرکتے ملیں گے عمودی ڈھلانوں کا اک سلسلہ بھی ملے گا اچانک جسے پار کرنے کی دھن میں تمہیں اپنے سب ساتھیوں کو گلانا پڑے گا حسیں دروپدی اور تمہارے جری بھائیوں کی ...

مزید پڑھیے

سلیٹ

جو جی میں آئے اس پر تحریر کرو جیسی چاہے لکیریں کھینچ دو نقش و نگار بناؤ اور جب چاہو آسانی سے مٹا دو کہیں کوئی نشان باقی نہیں بابا کی دی ہوئی سلیٹ میری آڑی ترچھی لکیروں کا کینواس کتنا سہل ہوا کرتا تھا اس پر لکھے ہوئے کو مٹا دینا اب لکھتی تو میری بٹیا بھی ہے لیکن اب وہ سلیٹ کہاں اب ...

مزید پڑھیے

ایک مکڑا اور مکھی

اک دن کسی مکھی سے یہ کہنے لگا مکڑا اس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمہارا لیکن مری کٹیا کی نہ جاگی کبھی قسمت بھولے سے کبھی تم نے یہاں پاؤں نہ رکھا غیروں سے نہ ملیے تو کوئی بات نہیں ہے اپنوں سے مگر چاہیے یوں کھنچ کے نہ رہنا آؤ جو مرے گھر میں تو عزت ہے یہ میری وہ سامنے سیڑھی ہے جو منظور ہو ...

مزید پڑھیے
صفحہ 844 سے 960