سلیٹ
جو جی میں آئے
اس پر تحریر کرو
جیسی چاہے لکیریں کھینچ دو
نقش و نگار بناؤ
اور
جب چاہو آسانی سے مٹا دو
کہیں کوئی نشان باقی نہیں
بابا کی دی ہوئی سلیٹ
میری آڑی ترچھی لکیروں کا کینواس
کتنا سہل ہوا کرتا تھا
اس پر لکھے ہوئے کو مٹا دینا
اب لکھتی تو میری بٹیا بھی ہے
لیکن اب وہ سلیٹ کہاں
اب ہے پنسل کی گہری نوک جو گڑ جاتی ہے
کاغذ کے سینے میں نشتر کی طرح
ٹوٹے پھوٹے حروف
آڑی ترچھی لکیریں اور غیر واضح تصاویر آج
بھی وہی تو ہیں
مگر
ان کو مٹانے کی کوشش میں کاغذ پھٹ جاتا ہے
یا پھر
اس پر تحریر شدہ الفاظ کے گہرے نشان جو
مٹانے کے باوجود بھی باقی رہ جاتے ہیں کاغذ
کے سینے پر
وقت بدل رہا ہے
پہلے دل سلیٹ کی مانند ہوا کرتے تھے
نرم صاف اور شفاف
آج دل کاغذ کی مانند ہلکے ہو گئے ہیں
ان پر لکھا مٹتا تو ہے پر باقی رہ جاتے ہیں چند
نشان جو کبھی نہیں مٹتے
کبھی بھی نہیں