شاعری

تجدید

سن رہی ہو اینٹ پتھر کے سرکنے کی صدا ٹوٹی چھت پر بیٹھ کر آکاش کو تکتی ہو کیا اس کھنڈر کو چھوڑ کر آؤ چلیں میدان میں اس طرف وہ جھاڑیوں کا جھنڈ ہے حجلہ نما آؤ اس میں چل کے ہم اک دوسرے کو دیکھ لیں اور دیکھیں پتھروں کے یگ میں کیسا پیار تھا گھر بنے بگڑے، بسے اجڑے نگر ہر دور میں ایک یہ ...

مزید پڑھیے

پریشانیٔ دید

وہ پریشان ہے میری نظروں کو اپنے بدن سے لپٹتے چمٹتے ہوئے دیکھ کر کتنی بے چین ہے صندلیں جسم پر گویا لپٹے ہوئے سانپ ہی سانپ ہوں اور میں اس کے ہر انگ پر اپنی نظریں جمائے ہوئے سر بسر آنکھ ہوں زیر و بم زیر و بم پیچ و خم پیچ و خم ساق زانو جبیں پشت سر تا قدم میری لیزر شعاعوں کے اس جال ...

مزید پڑھیے

زباں دراز

میں اپنی بیماری بتانے سے معذور ہوں مجھے زبان کی عجیب بیماری ہو گئی ہے سو گفتگو سے پرہیز کرنے پر مجبور ہوں میرا لہجہ کرخت اور آواز بھاری ہو گئی ہے زبان میں فی لفظ ایک انچ اضافہ ہو رہا ہے پہلے بھی تو یہ کاندھوں پر پڑی تھی تمہیں میری مشکل کا اندازہ ہو رہا ہے تم جو مجھ سے بات کرنے پر ...

مزید پڑھیے

دعا کی شاخ پر

جب سے آئی ہے نظر مجھ کو دعا کی شاخ پر کونپل اثر کی میری پلکوں کو سجایا جا رہا ہے جھیل پتھر کو بنایا جا رہا ہے ریت سے آئینہ ڈھالا جا رہا ہے سنگ ذوق دید سے اک نگینہ سا تراشا جا رہا ہے بے ستوں پر ایک پارے کی لکیر اک مسلسل شب کے بعد صبح نو کی جوئے شیر آیۂ ''یمسک'' کی تفسیر

مزید پڑھیے

بمبئی رات سمندر

سمندر بولتا ہے سمندر اپنی پر اسرار موجوں کی زباں میں بولتا ہے سمندر کی صدائیں چیر دیتی ہیں شب تاریک کی چادر ابل پڑتی ہیں تسلسل اور تواتر کے دوائر میں تھرکتی ہیں سروں کے دانے اک تسبیح بن جاتے ہیں ''لے'' کے نرم ہاتھوں میں جو اس آواز کے جادو کے بس میں ہوتے جاتے ہیں سمندر کا کنارا سلیٹ ...

مزید پڑھیے

ہیلوسنیشن

میں اپنے بند کمرے میں پڑا ہوں اور اک دیوار پر نظریں جمائے مناظر کے عجوبے دیکھتا ہوں اسی دیوار میں کوئی خلا ہے مجھے جو غار جیسا لگ رہا ہے وہاں مکڑی نے جال بن لیا ہے اور اب اپنے ہی جال میں پھنسی ہے وہیں پر ایک مردہ چھپکلی ہے کئی صدیوں سے جو ساکت پڑی ہے اب اس پر کائی جمتی جا رہی ہے اور ...

مزید پڑھیے

گرو نانک

کثافت زندگی کی ظلمت میں شمع حق ضو فشاں ہو کیسے جہاں کی بجھتی ہوئی نگاہوں کو جگمگاتا ہے بام نانک نہ پاک کوئی نہ کوئی ناپاک کوئی اونچا نہ کوئی نیچا گرو کا یہ مے کدہ ہے اس جا ہر اک کو ملتا ہے جام نانک یہاں مٹے آ کے تفرقے سب رہی نہ آلودگی کوئی بھی یہ حرف الفت، یہ طور عرفاں، یہ عرش ...

مزید پڑھیے

محبان وطن کا نعرہ

شہید جور گلچیں ہیں اسیر خستہ تن ہم ہیں ہمارا جرم اتنا ہے ہوا خواہ چمن ہم ہیں ستانے کو ستا لے آج ظالم جتنا جی چاہے مگر اتنا کہے دیتے ہیں فرداے وطن ہم ہیں ہمارے ہی لہو کی بو صبا لے جائے گی کنعاں ملے گا جس سے یوسف کا پتہ وہ پیرہن ہم ہیں ہمیں یہ فخر حاصل ہے پیام نور لائے ہیں زمیں پہلے ...

مزید پڑھیے

مہاتما گاندھی کا قتل

مشرق کا دیا گل ہوتا ہے مغرب پہ سیاہی چھاتی ہے ہر دل سن سا ہو جاتا ہے ہر سانس کی لو تھراتی ہے اتر دکھن پورب پچھم ہر سمت سے اک چیخ آتی ہے نوع انساں کاندھوں پہ لئے گاندھی کی ارتھی جاتی ہے آکاش کے تارے بجھتے ہیں دھرتی سے دھواں سا اٹھتا ہے دنیا کو یہ لگتا ہے جیسے سر سے کوئی سایا اٹھتا ...

مزید پڑھیے

وحشت

مجھے وحشت کا مطلب کب پتہ تھا آج سے پہلے کبھی ایسا ہوا یہ دل ذرا گھبرا گیا تو کہہ دیا کہ دل بہت وحشت زدہ ہے اور ایسا بھی ہوا گر سخت لہجے میں کسی نے بات کی یا بات رد کر دی نہ کوئی کام ہو یا نہ نیند آئی تو پھر بھی کہہ دیا وحشت بہت ہے مجھے یہ لفظ اچھا ہی بہت لگتا تھا پر ایسے نہیں دیکھو کہ ...

مزید پڑھیے
صفحہ 838 سے 960