زباں دراز

میں اپنی بیماری بتانے سے معذور ہوں
مجھے زبان کی عجیب بیماری ہو گئی ہے
سو گفتگو سے پرہیز کرنے پر مجبور ہوں
میرا لہجہ کرخت اور آواز بھاری ہو گئی ہے


زبان میں فی لفظ ایک انچ اضافہ ہو رہا ہے
پہلے بھی تو یہ کاندھوں پر پڑی تھی
تمہیں میری مشکل کا اندازہ ہو رہا ہے
تم جو مجھ سے بات کرنے پر اڑی تھیں


آخری تکرار کے بعد میں نے زبان سمیٹ لی ہے
اب میں ایک لفظ بھی مزید نہیں بولوں گا
کھینچ تان کر زبان اپنے بدن پر لپیٹ لی ہے
دعا نہیں کروں گا گرہ نہیں کھولوں گا


ہر پسلی دوسری پسلی میں دھنستی جا رہی ہے
میری زبان میرے بدن پر کستی جا رہی ہے