شاعری

جہاں میں کھڑی تھی

جہاں میں کھڑی تھی وہاں سے قدم، دو قدم ہی کا رستہ تھا جس جا پہ موسم بدلنے کو تیار بیٹھے تھے میرے یہ بس میں نہیں تھا کہ میں اپنی کھڑکی کے آگے پگھلتے ہوئے منظروں میں کوئی اپنی مرضی کا ہی رنگ بھر دوں خزاں کی اکڑتی ہوئی زرد بانہوں کو اپنے جھروکے کے آگے یہ بد رنگ پیلے مناظر سجانے سے ہی ...

مزید پڑھیے

سر مژگاں

رات اک خواب نے آنکھیں مرے اندر کھولیں اور بستر کی شکن کھینچ کے سیدھی کر دی پھر سرہانے سے اکٹھے کئے گزرے لمحے ایک تصویر بنا کر سر مژگاں رکھ دی آنکھ کھولوں گی تو یہ بوجھ گرے گا ایسے آنکھ کا گنبد سیماب پگھل جائے گا میرے سب خوابوں خیالوں کو نگل جائے گا اور اگر آنکھ نہ کھولی تو یہ گریہ ...

مزید پڑھیے

انتساب

شکایت نہ کرنا اگر یہ زمانہ پکارے تمہیں اور صدا میری آواز کی گونج ہو شکایت نہ کرنا اگر لوگ مڑ مڑ کے دیکھیں تمہیں اور ہر شکل میں میری مسکان تم کو دکھائی بھی دے اور سنائی بھی دے شکایت نہ کرنا اگر ہر زباں پر تمہارے بجائے مرا نام ہو تمہیں میری آنکھوں کی تعریف کرتے ہوئے سوچنا چاہئے ...

مزید پڑھیے

ایک کہانی

میرے کمرے میں پھیلی ہے ایک کہانی ابھی ذرا سی دیر ہوئی ہے میں نے اک میلے کاغذ پر حرفوں کے ٹکڑے جوڑے تھے اور کہانی کو تھوڑی سی جگہ ملی تھی پھر لفظوں کے تانے بانے بکھر گئے تھے جن لفظوں سے آنکھ مچولی کھیلتے کھیلتے بیت گیا ہے اتنا وقت کہ اب تو یاد بھی کب آتا ہے اپنے جسم کی قید میں ہیں ہم ...

مزید پڑھیے

دسترس

ابھرتی ہے مرے ماتھے کی سلوٹ میں شکن دھاگے کے کھنچنے کی ادھیڑے جا رہی ہوں میں بھی دن بھر سے مجھے جب یاد آتا ہے کہ میں کتنا الجھتی تھی مری نانی ہر اک کپڑے کو چاہے وہ نیا ہی کیوں نہ ہو اک بار کم سے کم نہ جب تک اپنے ہاتھوں سے ادھیڑیں اور سی لیں تب تلک ان کو سکوں آتا نہ تھا میں اکثر سوچتی ...

مزید پڑھیے

کھڑکی

میری جیسی نظمیں لکھنے والی لڑکی جس کھڑکی کی اوٹ سے مجھ کو دیکھ رہی ہے اس کے دھندلے شیشوں پر سب عکس ہیں میری آنکھوں سے بہتے پانی کے اور نقش ہیں اس کی چوکھٹ پر ان ہاتھوں کے اس کھڑکی کی آنکھوں سے دیکھا ہے میں نے اچھا اور برا لمحہ اور اندر اور باہر کے سب موسم وہیں سے گزرے ہیں اس کھڑکی ...

مزید پڑھیے

قرۃ العین حیدر

میں نے دیکھی ہیں کسی چہرے میں ایسی آنکھیں جن میں میرے کئی ان جانے سوالوں کے جواب ایسی آسانی سے سچائی کے در کھولتے ہیں آسمانوں میں زمینوں کے صنم بولتے ہیں میں نے جانا ہے کہ لفظوں کے طلسمی دھاگے کیسے تاریخ کو عنوان نئے دیتے ہیں کیسے آ ملتے ہیں صدیوں کی جدائی کے اسیر کس طرح خواب ...

مزید پڑھیے

جنگل

ایک عجیب سا جنگل ہے اس شہر کے بیچ اگ آیا گھنا مہیب اور گہرا جس کی خوب گھنیری چھایا یوں لگتا ہے جیسے میرے بھیتر کا اک سایا اک دن پہلے کہیں نہیں تھا ایسا سبز اندھیرا اونچی شاخوں کی پرتوں کا گنبد جیسا گھیرا دیکھوں پھر حیران رہوں اس شہر میں ایسا ڈیرا کانٹوں والے زہر بھرے بل کھاتے ...

مزید پڑھیے

احساس

رات پلیٹ میں دکھ رکھا تھا صبح کے کپ میں بے زاری تھی شام چائے کے ساتھ پڑا تھا دل کی صورت والا برفی کا اک ٹکڑا آج مرے کمرے میں پھر سے ہجر کی ٹیبل پر دل کا پیالہ یوں اشکوں سے بھرا ہوا تھا اندر سے کچھ ٹوٹ گیا تھا اور اک جگ یادوں سے بھرا میری جانب دیکھ رہا تھا ایک گلاس تھکن کا خالی جیسے ...

مزید پڑھیے

ورکنگ لیڈی

میں جب بھی گھر پہ آتی ہوں بہت سی چیزیں لاتی ہوں اور ان چیزوں میں اکثر خود کو رکھ کر بھول جاتی ہوں پتا اس وقت چلتا ہے کہ جب تکیے پہ رکھنے کو مجھے سر ہی نہیں ملتا میسر خواب کیسے ہوں کہ آنکھیں ہی نہیں ہوتیں تھکن سے چور ہاتھوں کی میں جب جب سسکیاں سنتی ہوں اپنی کرچیاں چنتی ہوں پہلو میں ...

مزید پڑھیے
صفحہ 839 سے 960