شاعری

پرسش ہے چشم اشک فشاں پر نہ آئے حرف

پرسش ہے چشم اشک فشاں پر نہ آئے حرف ڈوبیں بھی ہم تو سیل رواں پر نہ آئے حرف دونوں ہی اپنی اپنی جگہ لا جواب ہیں اپنے یقیں پہ ان کے گماں پر نہ آئے حرف اے رشک اتنا وہم و گماں بھی بجا نہیں احساس قربت رگ جاں پر نہ آئے حرف دل نا مراد شعلۂ عارض سے جل گیا ڈرتے تھے ہم کہ سوز نہاں پر نہ آئے ...

مزید پڑھیے

آج اپنی شام تنہائی کا ہے منظر جدا

آج اپنی شام تنہائی کا ہے منظر جدا جوش درد دل جدا ہے جوش چشم تر جدا آ گیا ہے دامن قاتل جو اپنے ہاتھ میں سب کا اک محشر جدا ہے اپنا اک محشر جدا کر دیا یہ کیا فسوں ساقی کی چشم مست نے اب جو ہوتا ہی نہیں لب سے مرے ساغر جدا میکشان چشم مست ناز ساقی کے لئے کیف ہر صہبا جدا ہے ذوق ہر ساغر ...

مزید پڑھیے

کچھ لطف خموشی میں نہ آہوں میں مزا ہے

کچھ لطف خموشی میں نہ آہوں میں مزا ہے بے کیفیٔ دل ان دنوں کچھ حد سے سوا ہے بے خود کئے رہتی ہے تصور کی فضا میں اپنی شب تنہائی کا عالم ہی جدا ہے اک ربط محبت ہی کا احساس ہے دل میں کچھ اور نہ احساس جفا ہے نہ وفا ہے اے دوست میں کیا محویت دل کو چھپاؤں جب حسن تصور ہی ترا ہوش ربا ہے اے ...

مزید پڑھیے

دل نہیں ہے تو جستجو بھی نہیں

دل نہیں ہے تو جستجو بھی نہیں اب کوئی شہر آرزو بھی نہیں عشق آزاد ہے کشاکش سے نامہ بر بھی نہیں عدو بھی نہیں حال و احوال کچھ نہیں معلوم ایک مدت سے گفتگو بھی نہیں ہر حوالہ نئی کتاب سے ہے کوئی ایضاً کوئی ہمو بھی نہیں مہرباں ہے تو اپنے مطلب سے ورنہ وہ ایسا نرم خو بھی نہیں اب بس ...

مزید پڑھیے

عشق اک امر لا شعوری ہے

عشق اک امر لا شعوری ہے دونوں جانب سے کیا ضروری ہے سانحہ ہو کہ خوش گوار انجام خود میں ہر داستاں ادھوری ہے وہ مرا چاند ہے مگر ہم میں اک زمیں آسماں کی دوری ہے کامیابی کا راز جانو ہو اک ذرا مشق جی حضوری ہے اک طرف اس کے ناز کا عالم اک طرف میری ناصبوری ہے یوں بھی لا تقنطو کی ہے ...

مزید پڑھیے

میری آہوں میں اثر ہے کہ نہیں دیکھ تو لوں

میری آہوں میں اثر ہے کہ نہیں دیکھ تو لوں رفعت درد جگر ہے کہ نہیں دیکھ تو لوں وہ جو تھا باعث تسکین غم ہجر کبھی اب وہی دیدۂ تر ہے کہ نہیں دیکھ تو لوں وہ تو آ جائیں گے سر تا پا تجلی بن کر تاب نظارہ مگر ہے کہ نہیں دیکھ تو لوں شام غم روز ازل سے رہی ہم راہ مرے میرے غم کی بھی سحر ہے کہ ...

مزید پڑھیے

نخچیر ہوں میں کشمکش فکر و نظر کا

نخچیر ہوں میں کشمکش فکر و نظر کا حق مجھ سے ادا ہو نہ در و بست ہنر کا مغرب مجھے کھینچے ہے تو روکے مجھے مشرق دھوبی کا وہ کتا ہوں کہ جو گھاٹ نہ گھر کا دبتا ہوں کسی سے نہ دباتا ہوں کسی کو قائل ہوں مساوات بنی نوع بشر کا ہر چیز کی ہوتی ہے کوئی آخری حد بھی کیا کوئی بگاڑے گا کسی خاک بسر ...

مزید پڑھیے

فتح کتنی خوبصورت ہے مگر کتنی گراں

فتح کتنی خوبصورت ہے مگر کتنی گراں بارہا رد کی ہے میں نے دعوت وصل بتاں نغمۂ بلبل ہے فریاد وداع فصل گل سعیٔ حاصل در حقیقت ہے متاع رائیگاں زندہ رہنے کے ہیں امکانات کیا آثار کیا کون سی قدریں ہیں باقی کون سی سچائیاں شاعروں کا کام کیا تنسیق اوصاف و لغوت یا ثنا شاہوں کی یا مدح‌‌ ...

مزید پڑھیے

زمیں نژاد ہیں لیکن زماں میں رہتے ہیں

زمیں نژاد ہیں لیکن زماں میں رہتے ہیں مکاں نصیب نہیں لا مکاں میں رہتے ہیں وہ ڈول ڈالیں کسی کار پائیدار کا کیا جو بے ثباتیٔ عمر رواں میں رہتے ہیں ہم ایسے اہل چمن گوشۂ قفس میں بھی حساب خار و خس آشیاں میں رہتے ہیں نہ بود و باش کو پوچھو کہ ہم فقیر منش سخن کے معبد بے سائباں میں رہتے ...

مزید پڑھیے

بھولوں انہیں کیسے کیسے کیسے

بھولوں انہیں کیسے کیسے کیسے وہ لمحے جو تیرے ساتھ گزرے ہے راہنما جبلت ان کی بے حس نہیں موسمی پرندے اے دانشور مفر نہیں ہے اقرار وجود کبریا سے جانا کوئی کارساز بھی ہے ٹوٹے بن بن کے جب ارادے محراب عمود برج قوسیں رس میں ڈوبے بھرے بھرے سے بحر کافور میں تلاطم بھونرا بیٹھا کنول کو ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4587 سے 4657