پرسش ہے چشم اشک فشاں پر نہ آئے حرف
پرسش ہے چشم اشک فشاں پر نہ آئے حرف ڈوبیں بھی ہم تو سیل رواں پر نہ آئے حرف دونوں ہی اپنی اپنی جگہ لا جواب ہیں اپنے یقیں پہ ان کے گماں پر نہ آئے حرف اے رشک اتنا وہم و گماں بھی بجا نہیں احساس قربت رگ جاں پر نہ آئے حرف دل نا مراد شعلۂ عارض سے جل گیا ڈرتے تھے ہم کہ سوز نہاں پر نہ آئے ...