شاعری

سفید پوش درندوں نے گل کھلائے تھے

سفید پوش درندوں نے گل کھلائے تھے زمین سرخ ہوئی سبز کرنے آئے تھے سمجھ لیا تھا جنہیں میں نے روشنی کا سفیر وہ آستین میں خنجر چھپا کے لائے تھے مسافروں کو گھنی چھاؤں لے کے بیٹھ گئی درخت راہ کے دونوں طرف لگائے تھے مجھے بھی چاروں طرف تشنگی نے دوڑایا مری نگاہ پہ آب رواں کے سائے ...

مزید پڑھیے

ہم سے تھیں رونقیں بزم آرائیاں

ہم سے تھیں رونقیں بزم آرائیاں اب سجاتے رہو اپنی تنہائیاں کوئی خوشبو نہیں کوئی نغمہ نہیں روز چلنے کو چلتی ہیں پروائیاں میری جاں میں تجھے کس طرح جانتا اس قدر وسعتیں اتنی گہرائیاں دیکھ لیجے کہیں آپ ہی تو نہیں میری آنکھوں میں ہیں چند پرچھائیاں کیسا افسوس ماتم ہو کس بات کا پھر ...

مزید پڑھیے

چٹان کے سائے میں کھڑا سوچ رہا ہوں

چٹان کے سائے میں کھڑا سوچ رہا ہوں میں آب رواں کس کے لیے ٹھہر گیا ہوں پانی میں چمکتا ہے کوئی مہرباں سایہ شفاف سمندر ہوں اسے چوم رہا ہوں پتھر نے پکارا تھا میں آواز کی دھن میں موجوں کی طرح چاروں طرف پھیل گیا ہوں اک سیپ تو لے آیا تھا پانی میں اتر کر مانا کہ اسے ریت پہ اب پھینک چکا ...

مزید پڑھیے

میں تیری چاہ میں جھوٹا ہوس میں سچا ہوں

میں تیری چاہ میں جھوٹا ہوس میں سچا ہوں برا سمجھ لے مگر دوسروں سے اچھا ہوں میں اپنے آپ کو جچتا ہوں بے حساب مگر نہ جانے تیری نگاہوں میں کیسا لگتا ہوں بچھا رہا ہوں کئی جال ارد گرد ترے تجھے جکڑنے کی خواہش میں کب سے بیٹھا ہوں تو برف ہے تو پگھل جائے گا تمازت سے تو آگ ہے تو میں جھونکا ...

مزید پڑھیے

ٹوٹ کر دیر تلک پیار کیا ہے مجھ کو

ٹوٹ کر دیر تلک پیار کیا ہے مجھ کو آج تو اس نے ہی سرشار کیا ہے مجھ کو وہ مہکتا ہوا جھونکا تھا کہ نیزے کی انی چھو کے گزرا ہے تو خوں بار کیا ہے مجھ کو میں بھی تالاب کا ٹھہرا ہوا پانی تھا کبھی ایک پتھر نے رواں دھار کیا ہے مجھ کو مجھ سے اب اس کا تڑپنا نہیں دیکھا جاتا جس نے چلتی ہوئی ...

مزید پڑھیے

وہ سو رہا ہے خدا دور آسمانوں میں

وہ سو رہا ہے خدا دور آسمانوں میں فرشتے لوریاں گاتے ہیں اس کے کانوں میں زمیں پہ گرتے ہیں کٹ کٹ کے سر فرشتوں کے عجیب زلزلہ آیا ہے آسمانوں میں سڑک پہ آ گئے سب لوگ بلبلاتے ہوئے نہ جانے کون مکیں آ گئے مکانوں میں پھٹے پرانے بدن سے کسے خرید سکوں سجے ہیں کانچ کے پیکر بڑی دکانوں ...

مزید پڑھیے

بے روزگار ہی سہی خوددار میں بھی ہوں

بے روزگار ہی سہی خوددار میں بھی ہوں اپنی رہ حیات میں دیوار میں بھی ہوں دو چار سال اور ہے ناقدریٔ سخن مردہ پرست شہر کا فن کار میں بھی ہوں تشکیک دل میں سر میں جنوں لب پہ گالیاں کیا روح عصر کی طرح بیمار میں بھی ہوں شہر منافقت میں بسر کر رہا ہوں میں لگتا ہے اپنے عہد کا اوتار میں بھی ...

مزید پڑھیے

ہوا کے ہاتھ میں پتھر دبا کر بھیج دیتا ہے

ہوا کے ہاتھ میں پتھر دبا کر بھیج دیتا ہے مرا انعام وہ مجھ کو برابر بھیج دیتا ہے نظر آتا ہے میرا ہاتھ ہر تخریب میں اس کو کوئی تہمت کہیں اٹھے مرے سر بھیج دیتا ہے مجھے بھی اب کسی تعمیر کا سودا نہیں ہوتا اسے بھی ضد ہے بربادی کے منظر بھیج دیتا ہے کھلونوں سے بہل جاتا ہوں یہ معلوم ہے ...

مزید پڑھیے

اگر ہو خوف زدہ طاقت بیاں کیسی

اگر ہو خوف زدہ طاقت بیاں کیسی نوائے حق نہ سنائے تو پھر زیاں کیسی اٹھاؤ حرف صداقت لہو کو گرم کرو جو تیر پھینک نہیں سکتی وہ کماں کیسی انہیں یہ فکر کہ میری صدا کو قید کریں مجھے یہ رنج کہ اتنی خموشیاں کیسی ہوا کے رخ پہ لیے بیٹھا ہوں چراغ اپنا مرے خدا نے مجھے بخش دی اماں کیسی ہوا ...

مزید پڑھیے

غیر آباد علاقے کی فضا کیسی ہے

غیر آباد علاقے کی فضا کیسی ہے دل سے اٹھتی ہے جو رہ رہ کے صدا کیسی ہے میرے پیروں سے لپٹتی ہی رہی موج رواں ریت سے کر نہ سکی مجھ کو جدا کیسی ہے ٹوٹ کر آئی ہے لہرائی ہے چاروں جانب یہ برستی ہی نہیں کالی گھٹا کیسی ہے پتیاں دھوپ میں کمھلا گئیں پھیکے ہوئے رنگ چھاؤں اتری ہی نہیں آب و ہوا ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4559 سے 4657