سفید پوش درندوں نے گل کھلائے تھے
سفید پوش درندوں نے گل کھلائے تھے زمین سرخ ہوئی سبز کرنے آئے تھے سمجھ لیا تھا جنہیں میں نے روشنی کا سفیر وہ آستین میں خنجر چھپا کے لائے تھے مسافروں کو گھنی چھاؤں لے کے بیٹھ گئی درخت راہ کے دونوں طرف لگائے تھے مجھے بھی چاروں طرف تشنگی نے دوڑایا مری نگاہ پہ آب رواں کے سائے ...