شاعری

چراغ بجھ بھی چکا روشنی نہیں جاتی

چراغ بجھ بھی چکا روشنی نہیں جاتی وہ ساتھ ساتھ ہے اور بیکلی نہیں جاتی شباب رفتہ پھر آتا نہیں جوانی پر یہ وہ مکاں ہے کہ جس کو گلی نہیں جاتی عجیب در بدری میں گزر رہی ہے حیات کہ اپنے گھر میں بھی اب بے گھری نہیں جاتی چمن کو چاروں طرف گھیر کر نہیں رکھنا صبا گلوں کی طرف کب چھپی نہیں ...

مزید پڑھیے

زخم کے رنگ ہیں کیا میری ردا جانتی ہے

زخم کے رنگ ہیں کیا میری ردا جانتی ہے کس نے کی کس سے وفا خود یہ وفا جانتی ہے اب قفس اور گلستاں میں کوئی فرق نہیں ہم کو خوشبو کی طلب ہے یہ صبا جانتی ہے خود پرستی کے محلات میں رہنے والو زلزلہ آنے کو ہے لرزش پا جانتی ہے میں نہیں جانتا دریوزہ گری کو لیکن میرے لب پر ہے دعا کیا یہ دعا ...

مزید پڑھیے

کف خزاں پہ کھلا میں اس اعتبار کے ساتھ

کف خزاں پہ کھلا میں اس اعتبار کے ساتھ کہ ہر نمو کا تعلق نہیں بہار کے ساتھ وہ ایک خموش پرندہ شجر کے ساتھ رہا چہکنے والے گئے باد سازگار کے ساتھ کھلے دروں سے طلب گار خواب گاہیں مگر میں جاگتا رہا اک خواب ہمکنار کے ساتھ کلی کھلی ہے سر شاخ اور یہ کہتی ہے کہ کوئی دیکھے تمنائے خوش گوار ...

مزید پڑھیے

کہیں سے باس نئے موسموں کی لاتی ہوئی

کہیں سے باس نئے موسموں کی لاتی ہوئی ہوائے تازہ در نیم وا سے آتی ہوئی بطور خاص کہاں اس نگر صبا کا ورود کبھی کبھی یوں ہی رکتی ہے آتی جاتی ہوئی میں اپنے دھیان میں گم صم اور ایک ساعت شوخ گزر گئی مری حالت پہ مسکراتی ہوئی سراب خواہش آسودگی مگر کوئی شے ملی نہیں ہے طبیعت سے میل کھاتی ...

مزید پڑھیے

زخم دل اپنا کبھی اس کو دکھا بھی دینا

زخم دل اپنا کبھی اس کو دکھا بھی دینا اس کی سن لینا کبھی اس کو سنا بھی دینا آنسوؤں اور شرابوں کی کہانی کب تک مری غزلوں کو کوئی رنگ نیا بھی دینا میں ہوں منزل کا طلب گار مگر راہنما مجھ کو دو چار قدم راہ وفا بھی دینا ترے احسان نہ ہرگز میں کبھی بھولوں گا بھول جاؤں تو مجھے یاد دلا بھی ...

مزید پڑھیے

تمہیں اتنا بتا دوں میں کسی انجام سے پہلے

تمہیں اتنا بتا دوں میں کسی انجام سے پہلے بہت سے نام آئیں گے تمہارے نام سے پہلے ہر اک اکرام سے پہلے ہر اک انعام سے پہلے نمٹنا ہے مجھے یارو کسی الزام سے پہلے اندھیرے سے بڑا ہوتا ہے دیکھو ڈر اندھیرے کا چراغوں کو جلا رکھا ہے اس نے شام سے پہلے میں جب شہرت کے رستے پر نکلتا ہوں تو ملتا ...

مزید پڑھیے

بہت دن سے بتانا چاہتا ہوں

بہت دن سے بتانا چاہتا ہوں تمہیں میں غائبانہ چاہتا ہوں بظاہر روٹھ جانا چاہتا ہوں مقدر آزمانا چاہتا ہوں تمہیں فرصت نہیں ہے لمحہ بھر کی ادھر میں اک زمانہ چاہتا ہوں مجھے بھی پریم ہے اردو سے یارو غزل سے آب و دانہ چاہتا ہوں مجھے ڈر ہے نعیمؔ اس بار میں بھی تعلق تاجرانہ چاہتا ہوں

مزید پڑھیے

اس کا انداز ہے جدا سب سے

اس کا انداز ہے جدا سب سے فاصلہ سب سے رابطہ سب سے لوگ مصروف ہیں فسانوں میں آپ کہہ دیجے واقعہ سب سے جانے کیوں طے ہوا نہیں اب تک دو قدم ہی کا فاصلہ سب سے چند ناموں پہ پردہ رہنے دو میری اتنی ہے التجا سب سے چپ رہا کرتا ہے نعیمؔ اکثر جب سے واقف وہ ہو گیا سب سے

مزید پڑھیے

یوں حسرتوں کی بھیڑ ہے تنہائیوں کے پاس

یوں حسرتوں کی بھیڑ ہے تنہائیوں کے پاس جیسے محل میں داسیاں شہزادیوں کے پاس بچے جھلس نہ جائیں جہالت کی آگ میں رکھئے نہ اس کپاس کو چنگاریوں کے پاس جن رہبروں کے دل میں ہر اک کا خیال تھا وہ نورتن نہیں رہے درباریوں کے پاس وہ سادگی وہ ناز و ادا خواب ہو گئے بس خود نمائی رہ گئی ...

مزید پڑھیے

کنارے معتبر ہوتے محافظ ناخدا ہوتا

کنارے معتبر ہوتے محافظ ناخدا ہوتا نہ کشتی ڈوبتی کوئی نہ ہر پل سانحہ ہوتا یہاں حق بات یارو فائلوں میں نہ دبی ہوتی عمر فاروق جیسا گر ہمیں منصف ملا ہوتا حسد و بغض و کینہ خود نمائی ہیں سبھی فتنے یہ نہ ہوتے اگر شیطاں نے اک سجدہ کیا ہوتا لچک پتھر میں گر ہوتی تو پھر پتھر نہ کہلاتا وہ ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4544 سے 4657