چراغ بجھ بھی چکا روشنی نہیں جاتی
چراغ بجھ بھی چکا روشنی نہیں جاتی وہ ساتھ ساتھ ہے اور بیکلی نہیں جاتی شباب رفتہ پھر آتا نہیں جوانی پر یہ وہ مکاں ہے کہ جس کو گلی نہیں جاتی عجیب در بدری میں گزر رہی ہے حیات کہ اپنے گھر میں بھی اب بے گھری نہیں جاتی چمن کو چاروں طرف گھیر کر نہیں رکھنا صبا گلوں کی طرف کب چھپی نہیں ...